خطرات میں گھِرا پاکستان اور ہماری سیاست

Published on May 29, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 532)      No Comments

SarGoshyan
سرحدوں پر امن کے دیپ جلانے والے سیکولر دانشوروں کو نوید ہو کہ بھارت نے بڑی شان سے سیکولرازم کا جنازہ نکالتے ہوئے ’’کالی کے بھَگت ‘‘ کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجا دیا۔بھارتی انتخابات کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا کہ بی جے پی اور اُس کا اتحادی 543 کے ایوان میں سے 337 نشستیں لے اُڑے جن میں سے 283 سیٹیں کالی کے بھگت کی ہیں ۔63 سالہ نریندر مودی نامی یہ’’ بھگت‘‘ مسلمانوں کا ازلی ابدی دشمن ہے لیکن ایک خوبی بھی ضرورکہ اتنی جرأت کا مالک کہ ’’بغل میں چھُری ، مُنہ میں رام رام‘‘ پر عمل پیرا نہیں ۔ اُس نے 67 سالہ بھارتی تاریخ میں پہلی بار سیکولرازم کو محض ایک ڈھونگ قرار دیتے ہوئے کہا ’’میں اِس جھوٹے سیکولرازم کو ختم کر دونگا جس میں اقلیتوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔اُس کا اشارہ واضح طور پر ہندوستان میں بسنے والے 25 کروڑ مسلمانوں کی طرف تھا۔ نریندر مودی نے یہ بھی کہا کہ ہندو مذہب اور تہذیب بھارت کے لیے اہم ترین ہے اور اسی میں بھارت کی بقا ہے ۔اُس نے اُس ’’راشٹر سیوک سنگھ‘‘کی گود میں پرورش پائی جس کی بنیاد ہی مسلمانوں سے نفرت پر رکھی گئی تھی ۔ نریندر مودی نے آر ایس ایس کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کے اظہار کیا اور گجرات میں اسی کی شہہ پر ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔یہ بجا کہ گجرات کے سابق وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کو بھارتی سپریم کورٹ نے اِس خونِ ناحق سے بری الذمہ قرار دے دیا لیکن کوئی بھی غیر جانبدار مورخ اسے کبھی بھی معصوم قرار نہیں دے سکتا ۔جب ہمارے وزیرِ اعظم جناب نواز شریف نے نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا حتمی فیصلہ کیا تو ایک نیوز چینل پر ایک متعصب ہندو تجزیہ نگار یہ کہہ رہا تھا کہ چونکہ نریندر مودی نے حلف برداری کی تقریب میں تمام سارک سربراہان کو دعوت دی تھی اِس لیے پاکستان کے وزیرِ اعظم کو بھی مدعو کرنا پڑا ۔
باوجود اِس کے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور نفرتیں بھارت کی گھٹی میں پڑی ہیں اور نریندر مودی جنابِ نواز شریف کے بارے میں اہانت آمیز الفاظ کہہ چکے ہیں ، وزیرِ اعظم پاکستان نے تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کرکے ایک مستحسن قدم اٹھایا ۔اُنہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کہ ہمارا دین امن و آشتی کا سبق دیتا ہے اور امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش ربِّ کریم کو مرغوب ہے ۔میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتے ہیں اور اُن کا دورۂ بھارت تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہو گا ۔اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ اُن کے دورے کے دوران تمام متنازع امور پر بات ہو گی ۔جنابِ نواز شریف کی 27 مئی کو بھارتی وزیرِ اعظم اور صدر سے ملاقات طے ہے جس میں یقیناََ میاں صاحب لگی لپٹی رکھے بغیر تمام متنازع امور پر بات کریں گے لیکن اِن ملاقاتوں سے توقعات وابستہ کرنا عبث ہے ۔صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت کو یہ پیغام جاتا کہ ملکی سلامتی کے معاملات پر ہم سب ایک ہیں لیکن پاکستان میں تو سیاستدان ، حکومت ، اپوزیشن ، میڈیا اور حکومتی ادارے باہم دست و گریباں ہیں ۔طالبان سے مذاکرات کا دور دور تک پتہ نہیں ، مُلا فضل اللہ اپنے فدائین کو تیار رہنے کا حکم دے رہا ہے، محترم عمران خاں کی سونامی سڑکوں پر ہے ، مولانا طاہر القادری غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں اور ہمارے رہنما الزامات و جوابی الزامات کی دھُن میں مَگن اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو رہے ہیں ۔اِن حالات میں کسی خوشخبری کی محض دعا ہی کی جا سکتی ہے لیکن ہماری تو دعائیں بھی مستجاب نہیں کہ ہمارے اعمال ہی ایسے ہیں ۔
تقریباََ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے کچھ تحفظات کے ساتھ اِس بھارتی دورے کی حمایت کی ہے لیکن ہمارا اندرونی خلفشار اتنا بڑھ چکا ہے کہ یہ دورہ لا حاصل ہی رہے گا ۔وجہ صرف یہ کہ ہمیں ملک و قوم سے کہیں بڑھ کر کرسی عزیز ہے اور اسی کرسی کی تگ و دَو میں عمران خاں صاحب سڑکوں پہ ہیں ۔وہ اپنے صوبے میں تو کوئی انقلاب آفریں تبدیلی لانے سے قاصر رہے لیکن فیصل آباد میں نواز لیگ پر دھڑلے سے یہ الزام لگا دیا کہ ایک سال گزرنے کے باوجود حکومت لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری لانے سے قاصر رہی ۔ایسا کہتے ہوئے شاید خاں صاحب بھول گئے کہ اُنہوں نے پہلے 90 اور پھر 180 دنوں میں خیبرپختونخوا کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا لیکن 360 دنوں میں بھی صوبے کے حالات میں بگاڑ ہی پیدا ہوا ، سدھار نہیں۔اب وہ اپنی اِس ناکامی کا غصّہ پنجاب پر نکال رہے ہیں جو کسی بھی صورت میں ایک قومی لیڈر کے شایانِ شان نہیں ۔وہ ہر پندرہ بیس دن بعد کروڑوں روپے صرف کرکے ’’سونامیوں‘‘ کو کسی ایک جگہ اکٹھا کرکے میلہ لگا لیتے ہیں ۔ڈی چوک اسلام آباد کے بعد اُنہوں نے فیصل آباد میں ’’میلہ‘‘ لگایا اور اب یہ اعزاز سیالکوٹ کو بخشنے جا رہے ہیں ۔سوال مگر یہ ہے کہ خاں صاحب یہ سب کیوں اور کِس کے اشارے پر کر رہے ہیں ؟۔ اگر تحریکِ انصاف کو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کا شکوہ تھا تو احتجاج کا بہترین اور مروّجہ طریقہ تو یہی تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو حلف اٹھانے سے منع کرکے سڑکوں پر نکل آتے ۔ایسا کرتے ہوئے یقیناََ اُن کی باتوں میں وزن بھی ہوتا اور ہمدردی کا عنصر بھی پیدا ہوتا لیکن یہ کیا کہ ایک طرف خیبرپختونخوا حکومت کے مزے لوٹے جا رہے ہیں ، پنجاب میں قائدِ حزبِ اختلاف کی کرسی پر قابض ہیں اور دھاندلی کا شور بھی ۔خاں صاحب تو شاید بھول چکے ہوں لیکن قوم کو یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں وہ نواز لیگ کے خلاف آگ اگلتے ہوئے ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ نواز لیگ پنجاب لیگ حکومت کے مزے بھی لُوٹ رہی ہے اور مرکز میں اپوزیشن کا ڈھونگ بھی رچارکھاہے ۔یہ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ہے اور نواز ، زراری مِل بانٹ کر کھا رہے ہیں ۔اب یہی سب کچھ تحریکِ انصاف بھی کر رہی ہے ۔کیا یہ بھی فرینڈلی اپوزیشن ہی ہے؟۔
جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنا سیاستدانوں کاحق ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کا ’’حُسن‘‘ یہی ہے لیکن اگر نوبت گالی اور گولی تک پہنچ گئی تو پھر کچھ باقی نہیں بچے گا ۔تحقیق کہ اگر زباں ، دراز ہو جائے تو زیاں بَن جاتی ہے ۔ فیصل آباد کے جلسے میں شیخ رشید احمد نے جو زباں استعمال کی وہ (انتہائی معذرت کے ساتھ )کسی سیاستدان نہیں غنڈے کی زبان تھی ۔اُنہوں نے کہاکہ وہ فیصل آباد نہیں آنا چاہتے تھے کیونکہ یہاں انتہائی ’’بَد بُو دار‘‘ اور ’’ہیجڑا‘‘ رانا ثناء اللہ رہتا ہے جو شکل سے ’’رانا ‘‘ہر گز نہیں لگتا ۔مگر یہ خاں صاحب کی ضد تھی اِس لیے اُنہیں آنا پڑا۔شیخ صاحب نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے دہی بھلے اور چاٹ بنانے والے کو ملک کا صدر بنا دیا ہے ۔شیخ صاحب خود تو دھڑلے سے کہتے ہیں کہ وہ ’’تھڑے‘‘ کی سیاست کرتے ہیں لیکن صدرِ مملکت (جو قوم کا باپ ہوتا ہے )کے بارے میں ایسے الفاظ کا چناؤ اُن کے دوغلے پَن اور ذہنی پستی کی علامت ہے ۔صدرِ مملکت نے تو زندگی میں کبھی دہی بھلے بنائے نہ بیچے لیکن واقفانِ حال خوب جانتے ہیں کہ شیخ صاحب کا ماضی کیا ہے۔کہتے ہیں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ، شاہ محمود قریشی ، جن کی زبان میں لکھنویت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ، وہ بھی شیخ صاحب سے رنگ پکڑ رہے ہیں ۔فی الحال تو شاہ محمود صاحب نے اسی پر اکتفا کیا ’’ ایک طرف فیصل آباد کے لعل اور دوسری طرف نصیبو لال ۔تحریکِ انصاف کو فیصل آباد کے لعل اور نواز لیگ کو نصیبو لال مبارک ہو ‘‘۔آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Weboy