اپنی پارٹی کے اکلوتے لیڈراور نواز شریف صاحب کے پرانے ساتھی شیخ رشید صاحب کے بقول نواز شریف قسمت کے دہنی ہیں وہ نواز حکومت پر بعض دفعہ جائز ناجائز تنقید کرتے رہتے ہیں بڑھکیں مارنا ان کی سیاست کا ایک حصہ ہے مگرنواز حکومت کی مہنگائی، کرپشن ،لوڈشیڈنگ، لا ء اینڈ آڈر، ملک کے حساس ادراے کے خلاف ایک میڈیا کی طرف سے منفی مہم میں گوں مگوں اور اس میڈیا کے حمایت کی پالیسی، پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے بھارت جانا اور اس سے قبل بھارت کو موسٹ فیورسٹ قرار دینے کے ارادے سے ملک کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی خفا تھا کہ نواز حکومت نے ایک پاکستان کے بڑے سول سروس حصے کو بھی اپنا مخالف بنا لیا ہے۔ قوم کی طرف سے ایک بار پھربڑے مینڈیٹ ملنے پر بھی کیا بڑے فیصلے کے معاملے میں نواز شریف صاحب نے اپنے گزشتہ دور حکومت کی ناکامیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟
ڈان کی گزشتہ اتوارکے مین صفحہ کی خبر کے مطابق سول سروس کا بڑا حصہ نواز شریف حکومت کے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس(پی اے ایس)کی بے جا حمایت ہے دوسر ے دس گروپس کو چھوڑ کرپروموشن کرنا ہے ایک آڈر جو کہ دس فروری کو پاس کیا گیا ہے جو کہ ملک کی پاورفل بیوروکریسی کے متعلق ہے، نے سول سروس کے ایک بڑے حصہ کو ناراض کر دیا ہے۔
صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ حکومت کے اسٹیچوری ریگولیٹر ی آڈر(ایس آر او) کے تحت ۶۵ % سیکٹریٹ گروپ کے پروموشنپی بی ایس.21اور22 پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس(پی اے ایس)کو ملے ہیں باقی ۳۵%دوسرے کیڈر کے لیے رکھے گئے تھے جس میں آفس مینجمینٹ گروپ، کامرس اور ٹریڈ،بیرونی سروس،ایونیو سروس،انفارمیشن سروس،ملٹری لینڈ، کنٹونمنٹ،آڈٹ اینڈ اکاوٹنس،ریلوے اور لائسنس شامل ہیں۔ ۱۹ گریڈ کے بعد آفس مینجمینٹ کے آفیسرز کو اور کچھ دوسرے گروپ کے آفیسرز کو سیکٹریٹ گروپ میں پروموٹ کر دیا گیا، مگر اپنے گروپ میں نہیں، اس طرح سیکٹریٹ گروپ کے پرموشن کو بہت سے دوسرے گروپ میں تقسیم کر دیا گیا۔دس فروری کے آڈر کے تحت ۲۵ فی صد آسامیاں آف ڈ پٹی سیکرٹری(بی ایس 19) ۳۵ فی صد آسامیاں آف جائنٹ سیکریڑی (بی ایس 20) ۶۵ فی صد آسامیاں آف ایڈیشنل سیکرٹری )بی ایس(21 اور سیلرٹری(بی ایس 22) کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ہتھیا لے گیاور باقی۷۵ فی صد ،۶۵ فی صد اور ۳۵ فی صد دوسرے گروپ کے لیے ہیں ۔ ان حالات میں وہ بیروکریٹ جو مختلف بلاکس میں کام کرتے ہیں اس ناانصافی پر باتیں کرتے ہیں اوران میں کچھ کہتے ہیں کہ آیندہ ہماری ترقیاں رک گئیں ہیں اس دل آزاری کی وجہ سے بجائے حکومت کے کام صحیح طریقے سے کرنے کہ چہ مے گوئیوں میں لگے رہتے ہیں۔ڈان کے نمایندے کے مطابق یہ بھی کھلا ہوا راز ہے کہ مرکزی اورصوبائی حکومت صرف ایڈمنسٹریٹو سروس کے بیروکریٹ چائے حاضر اور چاہے ریٹائرڈ ہوں پر بروسہ کر کے حکومت کرتی ہے دونوں بھائی اپنے پاس کافی وزاتیں رکھتے ہیں اور ان ہی بیورکریٹ کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ بات الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا میں اس طرح آئی کہ ملک کے دس سے زائد قومی ادارے اپنے سربراہوں سے خالی چل رہے تھے یہ بات سب جانتے ہیں کہ بغیر سربراہ کے کوئی ادارہ اپنی کارکردگی کیسے دکھا سکتا ہے کوئی بڑا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے ۔ کیا یہ نواز حکومت کی ہڈمنسٹریٹو کوتاہی نہیں ہے؟ شاید اب کچھ اداروں میں سربراہ لگا دیے گئے ہیں۔اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کے لوگ کہتے ہیں کہ(ایس آر او) نے دوسرے اداروں کے پروموشن پر ناجائز قبضہ کر لیا ہے اس ناانصافی کے خلاف اسی ماہ کے شروع میں بیس سے زائد سینئر بیورکریٹس نے ایک گروپ کو نوازنے اور ((ایس آر او) کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ داخل کر دیا ہے۔
ڈان کی خبر کے مطابق اس میں جناب سینئر جائنٹ سیکرٹری ارشد فاروق فہیم، عارف ابراہیم،محمد اصغر چوہدری، عبدلاکبر شریف زادہ،الیاس خان اور جائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر،ڈاریکٹر جنرل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ڈاکٹر مختیار احمد، ڈی جی حامد شمیم اور ڈی جی نیپرا شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ(ایس آر او) جو ۱۰ فروری ۲۰۱۴ء کو جاری ہوا اس نے ۱۹۷۳ء کے سول سروس ایکٹ میں بڑی تبدیلی کر دی ہے جس سے ان کے حقوق متاثر ہوئے ہیں ان کے مطابق ۹۶۰ سول سرونٹ متاثر ہوں گے ۔ ان کے وکیل جناب عبدلا رحیم کا کہنا ہے کہ ((ایس آر او) سول ریفارمنز کی روح کے خلاف ہے۔ حکومت کو قانونی حق نہیں ہے کہ سول سروس ایکٹ میں بڑی تبدیلی کرے ہاں یہ کام پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کر سکتی ہے
اب جبکہ مقدمہ عدالت میں درج ہو چکا ہے ا س صورت حال کو (پی اے ایس)کے آفیسر زنہیں مانتے شاید اس لیے کہ ان کو اس سے فائدہ ہے ایک ایسے ہی آفیسر جس کو پرائم منسڑ
سیکٹریٹ میں لگایا گیا کا کہنا ہے کہ سیکرٹریٹ گروپ میں پروموشن ہمیشہ حکومت کے لیے پریشانی رہی ہے اس آرڈینس کے ذریعے حکومت نے اسے کنٹرول کیا ہے اور (ایس آر او) بیورکریٹ میں پروموشن کو صحیح سمت میں رکھتا ہے۔