الحمد للہ دین اسلام میں عورت کواتنا اونچا مقام مرتبہ حاصل ہوا ہے جواسے پہلے کسی مذہب میں حاصل نہیں ہواتھا اورنہ ہی کوئی اور امت اسے پا سکی۔دین اسلام نے انسان کوجوعزت واحترام دیا ہے اس میں مرد و عوت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ اسلام وہ دین ہے جس نے عورت کو اس کے کھوئے ہوئے حقوق واپس دلائے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا اور عورت کو اس کا اس اصل مقام نہیں دیا جاتا تھا۔ مثال کے طورپر فرانس میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر آدھی روح ہوتی ہے، اس لئے وہ معاشرہ میں برائی کی وجہ اور بنیاد بنتی ہے۔ چین میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر شیطانی روح ہوتی ہے، اس لئے پورے معاشرہ میں فساد کی بنیاد بنتی ہے۔ اسی طرح ہندوازم میں اگر کسی جوان عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو اس کو بدبخت سمجھا جاتا تھاحتی کہ خاوند کی لاش کے ساتھ اسے بھی جلادیا جاتا، یعنی عورت ستی ہو جایا کرتی تھی۔ اگر کوئی ایسا نہ کرتی تو اسے معاشرہ میں عزت و وقار کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
عرب میں اسلام سے قبل عورت کے حقوق کو اس قدر پامال کیا جاتا تھا کہ لوگ اپنے گھر میں بیٹی کا پیدا ہونامنحوس سمجھتے تھے اور بچیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔اس وقت معاشرہ کی یہی حالت تھی جب اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ نے آکر واضح کیا کہ ’’اے لوگو! عورت اگر بیٹی ہے تو یہ تمہاری عزت ہے، اگر بہن ہے تو تمہارا ناموس ہے، اگر بیوی ہے تو تمہاری زندگی کی ساتھی ہے اور اگر ماں ہے تو تمہارے لئے اس کے قدموں میں جنت ہے‘‘۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جس آدمی کی دو بیٹیاں ہوں، وہ ان کی اچھی تربیت کرے، ان کو تعلیم دلوائے، حتی کہ ان کا فرض ادا کرے تو وہ جنت میں ایسے ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہیں‘‘۔
ٹی وی پر نیوز بلٹن دیکھ رہا تھا اس میں ایک نیوز حافظہ آباد میں ہونے ضمنی الیکشن کی آئی جس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس قدر گھٹیا حرکت کی جس کو قلم بھی بیان کرنے سے قاصر ہے۔ جس طرح میڈیا دیکھا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کسی مسلمان ملک کا واقعہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن مسلم لیگ ن کی ایم پی اے کو اس طرح تنگ کررہے تھے جیسے کیسی محفل میں تماش بین حرکات کرتے ہیں۔ ایک نوجوان تو کبھی کاندھا ماررہا تھا تو کبھی ٹانگیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنے لوگ موجود ہونے کے باوجود کوئی بھی اس نوجوانوں کو ایسی بے ہودہ حرکتوں سے نہیں روک رہا تھا۔ کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ن لیگ کی ممبر بعد میں ہے پہلے ایک عورت ہے اس کے بعد یہ کسی کی ماں اور کسی کی بیٹی بھی ہے۔ خان جی سے کوئی پوچھے کہ کیا ایسی تربیت دی جاتی ہے ان کارکنوں کو؟ کیاپی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے کی جانے والی ان حرکا ت پربھی خان صاحب احتجاجی مظاہرہ کریں گے؟
ہمارے مذہب نے خواتین کو اتنا مقام دیا مگر ہمارے اسی اسلامی ملک میں حافظہ آباد کے ضمنی الیکشن عورت کے ساتھ وہ سلوک کیا جس نے تمام مسلمانوں کے سر جھکا دیے۔ جومذہب عورت کا احترام اتنا زیادہ سکھاتا ہے اسی مذہب کے ماننے والوں نے عورت کی چادر کو تار تار کردیا۔ بقول فرزانہ بٹ ایم پی اے کے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے دوپٹہ کھینچا اورفحش گالیاں دی۔کارکنوں نے ایسی غیراخلاقی حرکتیں کیں جو بتائی بھی نہیں جا سکتیں۔ دل چاہ رہا تھا چیخیں مار مار کر روؤں۔ ایسا سلوک کیا گیا جو بتایا نہیں جا سکتا۔ مردوں نے ہلہ بول دیا اور ٹھڈے مارے۔ میڈیا نے جو دکھایا تو وہ اس بیہودگی کا دسواں حصہ بھی نہیں تھا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے غنڈہ گردی کی انتہا کر دی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے ہونے والی ان حرکات کے بارے میں جب فرزانہ بٹ کا موقف سننے کے بعد ہر مسلمان کاسر شرمندگی سے جھک گیا۔ ہم لوگ مسلمان ہونے کے باوجود اخلاقیات کی تمام حدیں کیوں کراس کرجاتے ہیں۔ اس واقعہ سے کچھ دن پہلے سوشل میْڈیا پر پی ٹی آئی لاہور کی اہم رہنما نے انکشاف کیا کہ کہ پی ٹی آئی کے جلسوں میں عورتوں سے بے ہودہ سلوک کیا جاتا ہے۔اس کی باتیں سن کر کوئی یقین نہیں کررہا تھا بلکہ سب لوگوںیہ سمجھ رہے تھے کہ اس نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہوگی اس لیے ان کے خلاف زہر اگل رہی ہے مگر جب چینلز پر حافظہ آباد والا واقعہ دیکھا اور اس کے بعدمیں کچھ اور کہنے یا لکھنے سے قاصر ہوں۔
سیاسی کارکن کسی بھی پارٹی کے ہوں مگر ان کو اخلاقیات کا خیال رکھنا چاہیے۔عورت کا احترام ہم سب پر فرض ہے۔ عورت کی حقوق کسی اور نے نہیں دلائے یہ حقوق دلانے والا بھی ہمارامذہب ہے۔ پھر جب ہم خود ایسی حرکات کریں گے تو غیر مسلموں کو تو موقع ملے گا مسلمانوں کے خلاف بولنے کا۔ عورت کا معاشرے میں ہی نہیں آخرت میں بھی بڑا مقام ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت ماں کے قدموں کے تلے رکھی ہے۔ہمارے سیاستدانوں کے کو چاہیے کہ وہ بنت حوا کو سیاست کے میدان میں ذلیل کرنے کے بجائے ان کا احترام کرنے کا درس دیں۔ اپنے کارکنوں کی اچھی تربیت کریں تاکہ ہمارا سرفخر سے بلند ہوسکے۔