پاکستان میں کروڑوں افراد نجی اداروں میں ملازم ہیں ،معاف کرنا ملازم لکھا ہے ملازمت کرنے پرمجبور ہیں بلکہ یہ کہنا بھی مناسب نہیں غلامی کرنے پر مجبور ہیں کہنا چاہیے ۔ان سفید پوشوں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں ۔ایسے کروڑوں افراد کو اس بجٹ میں نظر انداز کر دیا گیا۔۔حالات نہیں بدلیں گے،مایوسی بڑھ گئی ہے ،اس بجٹ میں کیا سبزی،دالیں،پیاز ،گھئی،چینی،کپڑے،جوتے،ادویات،ٹرانسپورٹ کے لیے پٹرول ، بچوں کے لیے کاپی ،پنسل،اور سب سے بڑھ کر بجلی کے بل ،بجلی نہ ہونے پر بھی ،میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ۔خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو صرف ان اشیائے ضرورت سے مطلب ہے ۔اس وقت پاکستان کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔یعنی جانوروں کی طرح ۔صاف پینے کا پانی،دوا کے لیے پیسے، جن کو کھانا پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں (میں نے خوراک کی کمی یا متوازن غذائیت والا کھانا نہیں لکھا) جن کے بچے بھی گھر کا خرچ چلانے کے لیے نوکری کرتے ہیں۔ جسے چائلڈ لیبر کہتے ہین چونکہ میں خود ان میں شامل ہوں ۔اس لیے ان کے دکھ اور بے بسی سے واقف ہوں۔ایسے افراد رات کو آدھے بھوکے سوتے ہیں تو سوچتے ہیں صبح انقلاب آ جائے گا ،صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں ،بس تبدیلی آنے ہی والی ہے ۔مگر حا لات چیخ چیخ کر کہتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔اس کے لیے خونی انقلاب آے گا ۔تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق ،مرنا تو ویسے ہی سہی ایسے مر جائیں گے ۔جب ان غریبوں نے یہ سوچ لیا اس دن انقلاب آجائے گا ۔جب یہ غریب جاگ اٹھے جب یہ بھوک پیٹ،پھٹے پرانے کپڑوں میں ،سڑکوں پر آ گئے تو ان بجٹ بناکر ان کا مذاق اڑانے والوں کو ان کے محلات سے نکال کر سچ مچ چوکوں پر لٹکا دیں گے۔ اپنے بجٹ میں وزیر خزانہ نے دس وڑ افراد (کیڑے میکوڑوں) کا مذاق اڑاتے فرمایا کہ پاکستان مین فی کس آمدنی 1306 ڈالر ہو گئی ہے یعنی 1500 روپے کم از کم ایک دن کی آمدن فی کس آمدن معلوم کرنے کا جو فارمولا ہے اس کے تحت وہ جو روزانہ لاکھوں کماتا ہے اسے بھی ایک فرد گنا جاتا ہے اور وہ جو بے روزگار ہے اسے بھی ایک فرد گنا جاتا ہے اپنے امیر وزیر کو غربت کا کیا علم اسے کیا پتہ غربت کتنا بڑا گناہ ہے کتنا بڑا جرم ہے ۔یہ بندہ کو کفر تک لے جاتی ہے ،اس سے زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے ۔اس کی ایک حد ہے ایک وقت آتا ہے جب غریب سوچتا ہے مر جاو یا مار دو ۔مگر کیا یہ غریب جاگ اٹھیں گے ۔ایسا ممکن نہیں غریب ہی خود اپنا دشمن ہے ،یہ مجبور ہے ۔گھر میں بچہ بیمار پڑا ہے اور گھر میں آٹاہے تو چینی نہیں ہے ،گھئی نہیں ہے ۔مزید بجلی کا بل ابھی دینا ہے ۔بجلی کے بل میں ان ڈئریکٹ ٹیکس شامل کیے گئے ہیں ۔ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں ایک انڈئریکٹ اور دوسرا ڈئرکٹ ۔انڈئریکٹ ٹیکس کا تمابوجھ غریب پر پرتا ہے ،اس کی وصولی آسان ہوتی ہے ۔ملک سے ،عوام سے،مخلص حکومتیں (امریکہ وغیرہ)ڈئریکٹ ٹیکس لگا کر ملک کی آمدن بڑھاتیں ہیں ہمارے ہاں بجٹ پورا کرنے کے لیے انڈئریکٹ ٹیکس بڑھایا جاتا ہے اور اس بجٹ کو غریب دوست کا نام دیا جاتا ہے ۔ غربا کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔
وقت کی ضرورت تو یہ ہے کہ عام آدمی (ان کو آدمی کہنے پر اگر لفظ آدمی کی حرمت پامال ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں کیڑے مکوڑے کہنا چاہیے)کے مسائل مثلا مہنگائی ،لوڈسیڈنگ ،غربت ،روزگار ، کم تنخواہ (پرائیویٹ اداروں ، فیکٹریاں ، انڈیسٹریز،ہوٹل سے لے کر تعلیمی اداروں تک ان کی کم تنخواہ )اس کو ختم کرنے کے لیے بجٹ میں ،کسی جماعت کے منشور میں،کسی اجتجاج میں سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا ،حکومت کے پاس اشیائے خوردونوش کے ریٹ کنٹرول کرنے کے لیے جو ردارے ہیں جو جو رشوت لے کر دوکانداروں کو ،میڈیکل سٹورز کو اور دیگر تجار کو ریٹ بڑھانے کی اجازت دے دیتے ہیں ان کو چیک کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ان مسائل کو حل کیسے کیا جائے؟ اس پر تمام جماعتوں کی ایک میٹنگ بلائی جاتی۔ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ۔اب ہو کیا رہا ہے اس سے تو سب واقف ہیں ۔اچھا لیڈر کون ہے؟فرقہ کون سا جنت میں جائے گا ؟کس پارٹی کو سپورٹ کرنا چاہیے ؟کون سی مذہبی جماعت درست ہے؟کون سچ بول رہا ہے ؟کس نے کتنا لوٹا ہے وطن کو ؟سچ کیا ہے ؟ دھاندلی کتنی ہوئی،وغیرہ وغیرہ ۔غریبوں کو جن پیٹ بھوکے ہوں ،بچے بیمار ہوں،مانگے سے بھی قرض نہ ملے،ان کو جیوو جنگ،میٹرو ٹرین،تبدیلی و انقلاب سے کیا لینا دینا۔اسی لیے ایسا نظام بنا دیا گیا ہے جو غریبوں کو مزید غریب کررہا ہے ۔یہ غریب اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔ان میں اتحاد نہیں ان کو شعور نہیں۔ان کو تعلیم سیاسی لیے دور رکھا جاتا ہے ۔