تحریر: غزل میر
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کی دنیا اور تاریخ میں بہت فرق ہے، آج کی نسل اور پرانی نسل کے وقت کو سمجھنے کیلئے اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے- آرٹیفیشل انٹیلیجنس کمپیوٹر بیسڈ ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے کمپیوٹر پروگرامز خو د سے مختلف عمل سیکھ سکتے ہیں مشینیں انسان کی عقل کی طرح وہی کچھ کر سکتیں ہیں جو کہ انسان- مشین کی سوچنے کی قابلیت انسان کی قابلیت سے زیادہ ہے جیسے کہ میتھ میں انسان سے جلدی مشین کے ذریعے جواب مل جاتا ہے، یہ وہ زمانہ ہے جس میں نئی نسل کی پیدائش ہو ئی اور پرانی نسل وہ ہے جس کو یہ زمانہ دیکھنا میسر تو ہے لیکن کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو نئی نسل پوری طرح سے سمجھ ہی نہیں سکتی ہے – پرانی نسل کے لوگوں کو بھی اس زمانے میں فنکشن کرنے کیلئے جدجہد سے گزارنا پڑ رہا ہے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس دنیا میں آ چکی ہے اور اس لئے کمپنیز کو اس تبدیلی کیلئے تیار ہونا چاہے۔ اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ ملازمین کو کون سی اضافی مہارت سیکھنے کی ضرورت ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مثبت پہلو پر غور کرتے ہیں۔مصنوعی ذہانت یعنی مشینیں انسانوں سے بہتر کام کر سکتی ہیں، وہ انتہائی درست کام بھی کرتی ہیں مثال کے طور پر پینٹنگ میں انسان اکثر غلطی کر جاتے ہیں لیکن مشینیں بلکل ایک جیسا پینٹ کرتی ہیں۔ فیکرٹریز اس لئے مسلسل کام کیلئے مشینوں کا استعمال کرتیں ہیں۔ فیصلہ کرنے کیلئے بھی مشینیں انسان کی نسبت تیز ہیں ۔ جیسے کہ جو سروس کے شعبے ہیں وہ ایک ہی بات گاہک کو دہرانے کے بجائے شارٹ کیز کا استعمال کرتے ہیں ۔اس لئے ملازمین پر اورلوڈ کو کم کرنے کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس بھی کام کرتی ہے۔ ایک بہت ہی مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ خطرناک کام کیلئے انسانوں کے بجائے مشین کا استعمال کیا جا تاہے۔بڑی کمپنیز کو فراڈ پکڑنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ ایک جیسا رویہ یا پیٹرن انسان سے کئی گنا ز یادہ جلدی مشین سیکھ جا تی ہے۔ اس پیٹرن سے باہر یا مختلف اگر کچھ ہو مثال کے طور پر گاہک کا آرڈر100 بار ایک جیسے آیٹم کا ہو تو پروگرامز انسان کو الرٹ کر تا ہے۔اگر ہم آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے منفی پہلو کے بارے میں سوچیں تو وہ بھی کم نہیں ہیں،مصنوعی ذہانت پر انسان انحصار کرنا شروع کردیتا ہے اور ہمیں یہ سستی اور تنزلی کی طرف لے جاسکتی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس بے روزگاری میں اضافے کا باعث بن رہا ہے(مشینیں تین افراد کا کام کر جا تی ہیں) پروگرام شودا الگورتھم ایک جیسا ہو تا ہے۔نئے خیالات ڈولپ صرف انسان کر سکتا ہے اور ا لگورتھم انسان کی طرح تخلیقی نہیں ہے۔وہ ابھی تک صرف وہ کر پا رہا ہے جس کیلئے اسے پروگرام انسان نے کیا ہے، اس لئے کمپنیز کے لئے اخلاقیات کو نافذ کرنا بھی بہت مشکل ہے،مشینوں میں یی نہیں ہوتیں جن کا روباروں میں سیلز اور مارکیٹنگ کے ڈیپارٹمنٹس ہو تے ہیں وہ بھی نقصان اٹھاتے ہیں،مشینیں انسانوں کے جذبات کو نہیں سمجھتی اور ربوٹس کی سروس انسان سے بہتر ہونا نامکمن ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے نا ہی صرف پرانی نسل کیلئے بے روزگاری بڑ رہی ہے بلکہ کام کے کچھ شعبے ختم ہو تے نظر آرہے ہیں۔ مشینیں ان شعبوں کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں کررہی ہیں۔سب سے بڑا نقصان چھوٹے بچوں کیلئے ہے جو فونز اور سکرینز کی وجہ سے ایک طرفہiteract کررہی ہے،چھوٹے بچوں کیلئے کچھ خاص پروگرامز مناسب ہیں لیکن اکثر ان کیلئے سکرین نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس زمانے کی نسل کو اتنا عام علم نہیں ہو گا جتنا کے پچھلی نسلوں کا ہے اور پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کا علم صرف مختلف ہو گا جو کہ اپنے شوق کے مطابق ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ ہر پل حاصل کررہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک تیزی سے آگے بڑھانے والی فیلڈ ہے اور کمپنیز کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ملازمین کے مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنے کے قابل بنانے کی تیاری ابھی سے کریں۔اپنے ملازمین کو اس نئی ٹیکنالو جی پر تربیت دینے کے مواقع تلا ش کریں تاکہ اس سے اپنی تنظیم میں مکمل طور پر قبول کیا جا سکے۔آخر میں اس غزل کے ساتھ اپنے کالم کا اختتام کررہی ہوں۔
سوچ میں ہیں اک زمانے سے ہم
کھوئے ہوئے دیوانے سے ہم
کہانی تو کچھ بھی نہیں تھی مگر
بن گئے پھر بھی افسانے سے ہم
کیسے لکھیں اب سچائی یہاں
ڈرتے ہیں قلم اٹھانے سے ہم
کتابوں کی دنیا میں ڈوبے ہیں یوں
کہ بچھڑے ہیں اب تو زمانے سے ہم
سب کچھ بدل سا گیا ہے یہاں
کہ لگتے ہیں خود کو بیگانے سے ہم