یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگرہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہیں‘‘(الحج:۴۱) قرآنی تعلیمات کے مطابق اقتدار اللہ کی طرف سے بخش ہوتی ہے وہ جس کو بھی بخش دیا جائے یہ علیحدہ بات ہے کہ اقتدار بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمایش ہوتی ہے اگر اسے اللہ کے احکامات کے مطابق استعمال کیا جائے تو وہ آخرت میں انعام کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مخالف سمت میں استعمال کیا جائے تووہ سزا کا ذریعہ بنتا ہے۔ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں ہمارا آخرت پر یقین ہے اس لیے انعام اور سزا کو سامنے رکھ کر حکومت کے نظام کوچلاناچاہیے۔ کیونکہ اللہ کی تائید اُن حکمرانوں کو حاصل ہوتی ہے جن کے سامنے انعام اور سزا کا تصور ہوتا ہے یعنی خدا ترس ہوتے ہیں۔ حکومت کے کام تو اللہ کی مشیعت کے تحت چلتے ہی رہتے ہیں انعام والے کاموں میں اللہ کی مرضی شامل ہوتی ہے اور اللہ کے احکامات کے مختلف سمت چلنے والے کاموں میں اللہ کی مرضی شامل نہیں ہو تی یہ اللہ کے اس نظام کے تحت ہے کہ نیکی اور بدی دونوں کھول کر بیان کر دی گئی ہیں اور اللہ نے انسان کو اچھے اور بُرے، دونوں کاموں کرنے کی اجازت بھی دی ہے مگر ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ نیکی کے کاموں کااجر دیا جائے گا اور بدی کے کاموں میں سزا دی جائے گی۔ یہ تو ہوا اقتدار کا مسئلہ ۔دوسری بات جو اس آیات میں کہی گئی ہے کہ نماز قائم کریں گے اسلامی حکومت کا نماز قائم کرنے سے مراداقامتِ صلوٰۃ قائم کرنا ہے یعنی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا کام یہ بھی ہو گا کہ مملکت کے اندر باقاعدہ صلوٰۃ کا نظام قائم کریں ۔مساجد بنائی جائیں گیں نماز کے وقت پر آذان دینے کے لیے موذن رکھے جائیں گے نماز کے پانچ وقت پر معاملاتِ حکمرانی روک دیے جائیں گے بازار میں خرید فروخت بند کر دی جائے گی ملازمین کو ملازمت کے دوران میں نماز پڑھنے کا وقت دیا جائے گا اور لوگ مساجد کا رخ کریں گے اس کی جھلک جو لوگ سعودی عرب جاتے ہیں محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ جنگ بھی ہو رہی ہو گی تو بھی صلوٰۃ پر عمل کیا جائے گے حدیث کی کتب میں جنگ کے دوران صلوٰۃ کیسی پڑھی جائے گی مکمل طریقہ بتایا گیا ہے پانچ وقتہ نماز کی ادائیگی کے بعد یہ سارے کام دوبارہ پھر سے شروع کر دیے جائیں گے۔ قرآن کی روح سے اللہ کی تائید و نصرت کے مستحق حکمرانوں کی صفات یہ ہیں۔ کہ اگر ان کو اس دنیا میں اقتدار بخشا جائے تو وہ فسق و فجور سے بھی دور رہتے ہیں۔ فاسق سے مراد اللہ کا نافرمان اوراطاعت کی حد سے نکل جانے والا۔ جب حکمران اللہ کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں تو اُن کارعایا سے تعلق کٹ جاتا ہے اور حکمران اور رعایا کے تعلق کو کانٹنے یا بگاڑنے کالازمی نتیجہ فساد ہے اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا بلکہ ملاپ کو پسند کرتا ہے۔اسلامی حکومت سے اختلاف کی صورت میں عوام غلط کاموں پر حکمرانوں کو متنبہ تو کر سکتے ہیں مگر اسلامی حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانا حرام ہے خصوصاً جب آزاد رائے سے نظام حکومت تبدیل ہونے کے راستے آئینی طور پر موجود ہوں ۔ مذید فرمایا گیا کہ ’’ ہم نے تمھارے طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں‘‘(البقرۃ:۹۹) ۔ دوسری جگہ کہا گیا کہ’’اور جو گ اللہ کی نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں(المائدہ:۴۷) اس آیات میں تیسری بات جو کہی گئی ہے کہ زکوٰۃ کا نظام کا قائم کرتے ہیں۔اسلامی حکومت کا کام زکوٰۃ کا نظام قائم کرنا ہے۔ اسلامی حکومت میں امیروں سے ایک طے شدہ نصاب کے مطابق ز کوٰۃ وصول کرے اور مندرجہ ذیل حاجتمندوں میں تقسیم کا انتظام قائم کرے۔ حاجتمند لوگ جن کا قرآن میں ذکر ہے وہ یہ ہیں۱۔ فُقرا، جو تنگ دست ہوں :۲۔مساکین،جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے:۳۔عا ملین علیہا ،جوزکوٰۃ وصول کرنے پر مامورہوں :۴۔موٗلفۃالقلوب ،جن کی تالیف قلب مطلوب ہوں: ۵۔ فی الرً قاب، قیدیوں کی رہائی کے لیے :۶۔ الغارمین ،جو لوگ قرضدار ہو ں :۔۷۔فی سبیل اللہ، یعنی جہاد اور دین کا علم حاصل کرنیوالوں کے لیے:۔۸۔ ابنُ السّبیل ، جو کوئی شخص مسافر ہے اُس کے لیے ہے۔ چوتھی بات جو کہی گئی وہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ امربلمعروف ونہی المنکر کا محکمہ قائم کرے جس سے نیکیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے کوئی بھی شخص یا ادراہ کسی نیک کام کم کرنے کا ارادہ کرے تو عوام اور حکومت کی طرف سے اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ اسلامی حکومت میں نیکیاں عام ہو جائیں لوگوں کا رجحان ایک دوسرے سے ہمدردی کا ہو جیسے ملک میں کوئی قدرتی آفت آ جائے تو سب مل کر آفت زدہ مسلمان بھائیوں کی مدد کو فوراً پہنچ جائیں اور ان کی مشکل دور ہو۔ اس محکمہ کے تحت برائیوں کو روکنے کا انتظام ہونا چاہیے کہ اگر کوئی ادارہ یا شخص برائی کرنا چائے تو اسے روکا جائے اور اگر وہ نہ رکے توحکومت اسے بزور رکھے۔ عوام اور حکومت کا کام ہے کہ عام شعور بیدار کیا جائے تاکہ برائی نہ پھیلے۔ پھر آخر میں فرمایا گیا کہ اور تمام معاملات کا
انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔دنیا میں جتنے بھی کام ہو رہے وہ اللہ کی نظر میں ہیں اور آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونگے اور اللہ کو اختیار ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ یہ تمام کام کس نیت سے کیے گئے لہٰذا حکمرانوں کو آخرت پر نظر رکھ کر اللہ سے ڈر تے ڈرتے عوام کی صحیح نیت سے خدمت کر نی چاہیے تاکہ اللہ کے پاس ان اقدام کی قدر ہو اور اللہ نے حکمرانوں کو جیسے اس دنیا میں حکومت دے کر نوازا ہے آخرت میں انعام سے بھی نوازے آمین۔