شاہدجنجوعہ لندن
اسلام کی بقاء اور احیاء کیسے ہوگی یہ فیصلے براہ راست اللہ رسول ﷺ کی مرضی سے ہوتے اور کسی مسلمان کلمہ گو میں اختلاف یا من مانی تشریح کی جرات نہ تھی اسوقت جہاد اور قتال کا ایک ہی مطلب تھا جو قرآن میں بڑا واضح ہے ۔ اسکی من مانی تاویلات کی کوشش کسی کے کافر اور منافق ہونے کا اعلان تھا۔
تاہم یہود و نصریٰ نے اسلام کے خاتمے کیلئے خلافت راشدہ کے ختم ہوتے ہی ایک نئے فلسفہ اسلام کی بنیاد رکھ دی جس کا آغاز منکرین زکوٰۃ سے ہوا مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کمال جرات اور بروقت فیصلہ سازی نے اس کوشش کا روک دیا۔ یہ فتنہ دراصل اسلامی ریاست کو کمزور کرنے کی پہلی منظم کوشش تھی جس کا مقصد اسلام کی قصر عمارت کو مکہ مدینہ تک محدود رکھنا تھا تاکہ وہ منظم اور مضبوط ہوکر قیصر و کسری اور قسطنطنیہ جو اس وقت کا پینٹاگون تھا اس کے لئے کسی قسم کے خطرے یا ان پر قبضے کا نہ سوچ سکے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ فتنہ خارجیت کی شکل میں نمودار ہوا اور اس نے شیرخدا حضرت علی اور کئ سو صحابہؓ کو نگلا۔
خلافت ملوکیت میں بدلی اور شوریٰ کا کردار بھی ویسا نہ رہا جیسا خلافت راشدہ کے دور میں تھا یا رسول اللہﷺ کی تعلیمات تھیں۔
اس کے بعد واقعہ کربلاء پیش آیا جس نے امت کو دو سبق دئیے ایک تصور حکمرانی بدلا، حق خلافت پامال ہوا، دستوری معاملات بادشاہی طرز اختہار کرگئے۔ اور یزید نے احیاء اسلام اور اسلام کے غلبہ دین کیلئے تصور جہاد میں نقب لگائی۔ گویا یزید کا تخت پر متمکن ہونا بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ تھا۔ جس سے نجات کے لئے دو نقطعہ ہائے نظر تھے۔
ایک سوچ اور انداز کوفیوں کا تھا کہ جی ہم بے بس اور کمزور ہیں یزید بہت ظالم ہے پیچھے نہیں ہٹے گا ہم اس سے نہیں لڑسکتے اور دوسرا فلسفہ نواسہ رسول سیدنا امام حسین علیہ اسلام اور خانوادہ رسول کا عمل تھا۔
کوفیوں کے فلسفہ اسلام میں عبادات و ریاضت تھیں۔ مل بیٹھو کھاؤ پیو ذکر و عبادات تھیں، شراب نوشی ، عیاشی، اور شاہانہ زندگی تھی لیکن جہاد کا کھلا انکار تھا۔
اور دوسرا فلسفہ حیات امام حسین کا تھا جس میں ظلم وجبر، قبضے، عیاشی ناانصافی اور من مانی تشریحات کا رد تھا اسلام ریاست کے لئے ایک باکردار ، عادل، باصلاحیت ، متقی اور جرات مند شخص کا حکمران ہونا لازم تھا۔
یہ جہاد اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا اصل قرآنی تصور تھا
اس کے برعکس آج پھر یزیدی طریقہ کار اور کوفی و خصی اسلام کا بیانیہ پروموٹ کرنے والے لوگ دراصل آج کے دور کےقاتلانِ امام حسین ہیں جو فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی دیکھ کر بھی مکمل لاتعلق ہیں اور توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ جی ہم حکمران نہیں غیرسیاسی لوگ ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ جہاد کا مطلب اسلامی ریاست اور مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی جنگ نہیں پیار محبت ہے۔ ایسے بزدل گھٹیا لوگ سارا الزام حکمرانوں پر ڈال کر خود حلوے مانڈے کھانے اور عیاشی والی عبادت کو ہی مکمل اسلام سمجھ کر دین دشمنوں اور اسلامی ریاست کا تیاپانچا کرنے والوں کے مقابلے میں نیک اورصالحہ قیادت پیدا کرنے اور اسے ایوان اقتدار تک پہنچانے کی زمہ داری سے بھی مکمل لاتعلق ہیں اورمسلمانوں کے قائد اور شیخ ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں سیاست ہے سیاست میں اسلام نہیں؟ اسلام بڑا واضح ہے اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلو چاہے ہلکا لگے یا بھاری۔ مارے جاؤ تو شہید زندہ بچ جاؤ تو غازی۔ جہاد کے حوالے سے قرآنی تعلیمات بڑی واضح ہیں۔
وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا
(آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟
سورۃ النساء آیت 75
آج جب اعلانیہ صیہونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی کررہی ہے۔ غزہ میں ہرطرف خون اور لاشی بکھری ہیں۔ ہسپتال، سکول مساجد شیلٹرز شاہراہیں سب تباہ کردی گئ ہیں۔ فلسطین قیامت خیز تباہی کے مناظر پیش کررہا ہے۔ ایک طرف میدان جنگ میں صیہونی فوج کے ساتھ انکے مذہبی راہنما توریت کے نسخوں کی تلاوت کرکے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اور دوسری طرف ماسواء فلسطین کے اور دوچار باقی کے تمام دوسرے مولوی خوف اور دہشت کے مارے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی زبانوں کو تالا لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہم۔ساری ذمہ داری حکمرانوں پر ڈالکر خود بری الزمہ نہیں ہوسکتے۔ کم ازکم ہر پبلک پلیٹ۔فارم۔پرصیہونی ریاست کی مذمت اور ان کی پراڈیکٹس کا بائیکاٹ کرنے اور مظلوم فلسطینیوں کی مالی و اخلاقی مدد کی ترویج اور مہم تو شروع کرسکتے ہیں۔ اس میں تو اپ کا اختیار چلتا ہے۔
کیا آپ کو پتہ نہیں کہ فلسطین سے اغواء ہونے والےکچھ بچوں کو تو بے دریغ قتل کردیاجاتا ہے اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں میکسیکو اور گوئٹے مالا کے پہاڑی علاقوں میں لے جاکر انکا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور انکے خلاف وہاں کے اٹارنی جنرل کی ہدایت پر تحقیقات شروع ہوچکیں ہیں اور اس دھندے میں ملوث یہودیوں کے بارے میں پچھلے سال 29 ستمبر کو بی بی سی نے اپنی ایک سٹوری میں یہودیوں کے اس مرکز جس کا نام۔”لیہ طہور” ہےاس کے بارے میں سٹوری پبلش کی اور انہیں باقاعدہ یہودی طالبان لکھا۔ یہ وہ اصطلاح ہےجسے کینڈین برانڈ شیخ الاسلام مسلمانوں سےجوڑ کر جہاد کے اصل تصور کے برعکس قرآن مجید کی غلط ، گمراہ کن اور خودساختہ تشریحات پیش کرتا رہا جس جہاد کی وجہ سے اسلام مکہ و مدینہ سے نکل کر یورپ تک پھیلا اور میزبان رسول امین حضرت ابوایوب انصاری جیسے جلیل القدر صحابہؓ اسوقت کے پینٹاگون یعنی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے حملہ آور ہوتے رہے جب تک کہ مراد رسولﷺ سلطان محمدفاتح رحمۃ علیہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے دنیا کے سب سے بڑے اور نصرانی و یہودیوں کے سب سے بڑے فوجی مرکز قسطنطیہ کو فتح نہیں کرلیا یہ جہاد اپنے دفاع کے لئے ہرگز نہ تھا اسلام کہ ترویج و اشاعت مقصود تھی یہ وہ عظیم جہاد ہے جس کے لئے اجرعظیم کی خوشخبری پیغمر اسلام خاتم النبینﷺ نے دی۔ قسطنطنیہ پر ح۔لء سے قبل سلطان محمد فاتح نے ایک اجلاس طلب کیا اور اجلاس کے دوران اس مجاہدعظیم نے اپنے رفقاء پر جو قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی اسے شکست فاش دے کران سے بدلہ لیا جائے گا۔