بیجنگ (یو این پی)اپیک رہنماؤں کا 30 واں غیررسمی اجلاس سان فرانسسکو میں منعقد ہوا۔چینی صدر شی جن پھنگ نے اجلاس سے ایک اہم تقریر کرتے ہوئے ایشیا پیسیفک خطے کے رہنماؤں کو یہ تجویز پیش کی کہ وہ ایشیا پیسیفک کی ترقی کے بارے میں گہرائی سے غوروفکر کریں، عالمی چیلنجوں سے نمٹنے اور ایشیا پیسیفک کی اگلی “تین سنہری دہائیوں”کے لیے مل کر کام کریں۔ منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق ہم اس صدی کے وسط تک کیسا ایشیا و بحرالکاہل دیکھنا چاہتے ہیں ، ایشیا بحرالکاہل کی ترقی کے آئندہ “تین سنہری دہائیوں” کی تعمیر کیسے کی جائے اور اس عمل میں اپیک کے کردار کو کس بہتر انداز سے بروئے کار لایا جائے؟ شی جن پھنگ نے ایشیا پیسیفک کی ترقی کے بارے میں یہ تین سوالات اٹھائے اور ان کے جوابات دیئے۔ ” سربراہ اجلاسوں کے میکانزم کے باقاعدہ قیام کے بعد سے ، اپیک ہمیشہ عالمی سطح پر کھلے پن اور ترقی میں سب سے آگے رہا ہے ، علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کی لبرلائزیشن اور سہولت کاری ، معاشی اور تکنیکی ترقی ، اور مصنوعات اور افرادی تبادلوں کے بہاؤ کو مؤثر طریقے سے فروغ دے رہا ہے اور اپیک نے “ایشیا و بحر الکاہل معجزہ” تشکیل دیا ہے ، جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے۔”شی جن پھنگ نے اپیک رہنماؤں کے غیر رسمی اجلاس میں اپنی تقریر میں نشاندہی کی۔” ایشیا و بحر الکاہل معجزہ ” کیا ہے؟ تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ایشیا پیسیفک کا خطہ تنازعات اور جنگوں کا شکار رہا ہے اور یہ بڑی بڑی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی کا میدان اور بین الاقوامی تنازعات کی جگہ بن گیا تھا۔ پھر جب سرد جنگ کے بادل چھٹے،تو ایشیا پیسیفک کا خطہ، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کی معیشتیں، جدیدیت کی جانب تیز رفتار راستے پر گامزن ہو چکی میں۔ ایشیاو بحرالکاہل کا خطہ، جس کی آبادی دنیا کا ایک تہائی حصہ ہے، دنیا کے اقتصادی حجم کا 60 فیصد سے زیادہ اور کل تجارتی حجم کا تقریباً نصف ہے۔ یہ دنیا کی اقتصادی نمو کا مرکز ،عالمی ترقی و استحکام کا محافظ اور تعاون کا”پیس سیٹر” بن چکا ہے۔امن و ترقی کے رجحان کی پیروی کرنا، کھلے پن اور جامعیت پر قائم رہنا، مشترکہ ترقی کے لیے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے تعاون میں مشترکہ بنیادوں کی تلاش کرنا، “ایشیا پیسفک معجزہ” کےسب سے اہم تاریخی تجربات ہیں،جو ایشیا پیسیفک کی اگلی ” تین سنہری دہائیوں” کے لیے دانشمندی بھی فراہم کرتے ہیں۔امن و استحکام ہمیشہ سے ایشیا پیسیفک خطے میں لوگوں کی مشترکہ خواہش رہی ہے اور یہ تمام خطوں اور ممالک کے مشترکہ مفادات میں بھی ہے۔ چین پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور عالمی امن کو برقرار رکھنے میں ایک اہم قوت بن گیا ہے۔ ایشیاو بحرالکاہل کے خطے کی صورت حال مجموعی طور پر مستحکم ہے، اور زیادہ تر ممالک پرامن ترقی کے خواہاں ہیں۔ چونکہ ایشیائی عوام نے تنازعات اور جنگ کے گہرے درد کو محسوس کیا ہے، اس لیے وہ امن اور سکون کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ایک کھلی، متحرک، مضبوط اور پرامن ایشیا پیسیفک کمیونٹی کی تعمیر، ایشیا پیسیفک کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے مشترکہ خوشحالی کا حصول ، ایشیا پیسیفک خطے کا مشترکہ ہدف ہے۔ اس ہدف کی تکمیل کے لیے، شی جن پھنگ نے اختراع پر مبنی کھلے پن پر عمل داری، سبز ترقی، اور جامع اشتراک سمیت چار تجاویز پیش کیں، جس سے ایک بار پھر ایشیا پیسیفک تعاون کے لیے چینی دانش پیش کی گئی ہے۔”چین پرامن ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔ ترقی کا بنیادی مقصد چینی عوام کو اچھی زندگی گزارنے کے قابل بنانا ہے،نا کہ کسی کی جگہ لینا۔” ترقی عوام کے لیے ہے اور امن بھی۔ اگر آپ اس کو سمجھ پائیں ، تو کبھی بھی “سرد جنگ” کی ذہنیت کی وجہ سے گمراہ نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ شی جن پھنگ نے زور دیا، چین صرف اپنی جدیدیت کی جستجو نہیں کر رہا ہے، بلکہ پرامن ترقی، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ خوشحالی کی عالمی جدیدیت کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر نا چاہتا ہے۔اگلی تین دہائیوں میں ایشیا پیسیفک کہاں جائے گا؟ ہمیں یقین ہے کہ ایشیا پیسیفک کے تمام ممالک کا اپنا اپنا فارمولہ اور جواب ہے۔