حکمت کی کتاب میں درج کر دیا گیا ’’تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو لوگوں پر طعن اور برائیاں کرنے کا خوگر ہے ‘‘۔ ہم نے مگر ہوسِ جاہ میں سب کچھ بھلا دیا ۔قیامِ پاکستان سے پہلے کی نسلوں کی جدوجہد سرمایۂ افتخار اور لا زوال لیکن پھر زوال ہی زوال۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے لیے دمِ واپسیں خراب ایمبولینس ، پہلے وزیرِ اعظم کا قتل ، پھر اقتدار کی ایسی بندر بانٹ کہ جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا ’’میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیرِ اعظم بدلتے ہیں‘‘ ۔پھرایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور پرویز مشرف کے طویل مارشل لاء اور انہی مارشل لاؤں کے دوران پاکستان دو ٹکڑے ہوا ، ایک وزیرِ اعظم کو پھانسی ، ایک کی جلاوطنی اور ایک کی شہادت لیکن پھر بھی تاریخ سے کچھ سیکھا نہ سیکھنے کی تمنا۔حکمت و دانائی کسی ایک قوم کا ورثہ ہوا کرتی ہے نہ کسی خاص خطے تک محدود ۔یہ تو پورے عالمِ انسانیت کا ورثہ ہے جس سے بلا امتیازِ مذہب و ملت ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں افکار و تخیلات کے چراغ روشن کرنے والے ایسے لوگ موجود رہے جن کے افکار میں گہرائی اور گیرائی ، الفاظ میں ندرت ، معنی میں وسعت اور زبان میں فصاحت و بلاغت دلوں کو جھنجھوڑتی رہی لیکن خرابئ قسمت یہ کہ ہم شدید ترین قحط الرجال کا شکار اور ہمارے علمائے دین جنہیں اصلاحِ معاشرہ کا فریضہ تفویض کیا گیا ، خود مُنہ سے آگ اُگلتے ہوئے یہ بھی بھول بیٹھے کہ ’’ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دُکھ ہو ‘‘(ال بقرہ)۔
اپنے آپ کو مجتہد العصر اور ولیِ کامل کہلوانے کے شوقین مولانا طاہر القادری نے وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ مولانا صاحب کے پیروکاروں کی چشم کشائی کے لیے کافی ہے ۔اُنہوں نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ’’ یہ بدمعاش ، بے شرم ، بے حیا اور ملک دشمن حکومت ہے جسے فوراََ ’’کِک آؤٹ‘‘ کر دینا چاہیے ۔۔۔یہ دھاندلی کا نام نہاد وزیرِ اعظم ، لوٹ مار کا وزیرِ اعظم اور پاک فوج کو بے عزت کرنے والا وزیرِ اعظم ہے ‘‘۔سوال یہ ہے کہ کیا کسی بھی عالمِ دین کو ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں ؟۔ہمارا دین تو مشرکین کے بتوں کو بھی برا کہنے سے منع کرتا ہے جبکہ ایک عالمِ دین جس کا ماضی گواہ ہے کہ اُس نے وزارتِ عظمیٰ کے چکر میں ایک آمر کے دَر پر زانوئے تلمذ تہ کیا ، آج ایک منتخب وزیرِ اعظم کے لیے ایسی زبان استعمال کر رہا ہے ۔آقا ﷺ کا فرمان ہے ’’علم دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک علم تو وہ جو زبان سے گزر کر دل میں جگہ پاتا ہے ، یہی علم قیامت میں کام آئے گا اور ایک علم وہ ہے جو صرف زبان تک رہتا ہے ، دل تک نہیں پہنچتا ۔یہ علم اللہ کی عدالت میں اُس آدمی کے خلاف حجت اور دلیل بنے گا‘‘۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سینکڑوں کتابیں لکھنے کا دعویٰ کرنے والے مولانا طاہر القادری علم تو ضرور رکھتے ہونگے لیکن یہ علم اُن کاکچھ بگاڑ نہیں پایا ۔مولانا صاحب شوق سے پاکستان آئیں لیکن افلاطون کا یہ قول ضرور یاد رکھیں کہ ’’سخت کلام آگ کا وہ شعلہ ہے جو ہمیشہ داغ چھوڑ جاتا ہے ‘‘۔اُن کا کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کردہ پُر تعیش کنٹینر بھی بدستور موجود ہے ، بھولے بھالے مریدین بھی اوراُن کے سکولوں کے مجبور و مقہور اساتذہ و طلباء بھی ۔وہ یقیناََ ایسی ’’نوٹنکی‘‘ دوبارہ بھی دکھا سکتے ہیں جیسی وہ دسمبر 2012ء میں دکھا چکے۔ اُنہیں بیرونی خفیہ ہاتھوں کی مدد بھی حاصل ہے اور افرا تفری پھیلانے کے لیے بیرونی امداد بھی بہت لیکن یہ ضرور یاد رہے کہ ناکامی و نامرادی اُن کا مقدر بنی اوربنتی رہے گی ۔
خرابئ حالات سے ہر کوئی آگاہ سوائے ’’کُرسی‘‘ کے پجاریوں کے ۔ہر نیا دن کسی نہ کسی اندوہ ناک واقعے کو جنم دیتا ہے۔رات ساڑھے گیارہ بجے کراچی ایئر پورٹ پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جنہیں پاک فوج کے جوانوں نے واصلِ جہنم کیا لیکن قیمتی تنصیبات کی حفاظت کرتے ہوئے اے ایس ایف ، رینجرز اور پولیس کے 16 جوان بھی شہید ہو گئے ۔اُدھر تفتان میں دو ہوٹلوں پر فائرنگ اور دستی بمبوں کے حملے سے 25 زائرین جاں بحق اور جیش الاسلام کے چار حملہ آور واصلِ جہنم ہوئے ۔یہ کوئی ایک دن کا قصہ نہیں یہ خونیں کھیل تو ہر روز کھیلا جاتا ہے۔اِدھر یہ عالم کہ
خدشوں نے جہاں دی نہ میری آنکھ بھی لگنے
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
اور اُدھر’’کُرسی‘‘ کی تگ و دَو ، دعویٰ مگرپھر بھی حب الوطنی کا۔وہ جو کبھی آمر پرویز مشرف کا طواف کیا کرتے تھے ، آج ایک دفعہ پھر اکٹھے ہونے کی تگ و دَو میں ۔چوہدری برادران اور مولانا طاہر القادری کی لندن میں ملاقات ہو چکی ، ایم کیو ایم بھی یقیناََ ساتھ دیتی اگر اُس کے قائد جنابِ الطاف حسین ’’گرفتارِ بَلا‘‘ نہ ہوتے ، جنابِ عمران خاں فی الحال دور دور۔ خدشہ یہ کہ کہیں ’’پکی پکائی‘‘ مولانا صاحب نہ لے اُڑیں ۔’’نیوز چینلی‘‘ سیاستدان شیخ رشید احمد کی شدید خواہش کہ ساری اپوزیشن جماعتیں مل کر نواز لیگ کے خلاف محاذکھولیں لیکن بُری طرح ناکام پھر بھی وہ اُمیدِ بہار رکھے ہوئے۔یہ سب کچھ نواز لیگ حکومت کو ناکام کرنے کے لیے کیونکہ نواز لیگ ملکی ترقی کے نِت نئے منصوبوں کا آغاز کر رہی ہے جو عمران خاں کو قبول نہ طاہر القادری کوکیونکہ اِن منصوبوں کی کامیابی سے دونوں کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔خاں صاحب کے ثناء خواں سینئر لکھاری کو بھی یہ سب منصوبے نمائشی لگتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں ’’ نواز لیگ نمائشی اور چمکتے دمکتے منصوبوں پر روپیہ لٹانے میں مصروف ہے ۔عوام سے بے نیازی ، مَن مانی اور میڈیا کے ہارے ہوئے جواری کی پشت پناہی کے طفیل شریف حکومت کے دن گنے جا چکے ۔ملک کو وسط مدتی انتخاب کی طرف لے جانا چاہیے ‘‘۔سینئر لکھاری نے اپنے ’’کالمی درویشوں‘‘ کے زور پر ایک عرصے تک تو لوگوں کو بیوقوف بنائے رکھا لیکن اب لوگ اُن کی باتوں پر کَم کَم ہی یقین کرتے ہیں کہ اُنہیں پتہ چل چکا کہ لکھاری کے محبوب ’’قائدِ اعظم ثانی‘‘ اگر وزارتِ عظمیٰ کی تگ و دَو میں ہیں تو وہ خود پنجاب کی گورنری کے لیے بے تاب ۔وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ فی الحال نواز لیگ کا کوئی متبادل نہیں لیکن فطری بغض سے دامن بھی بچا نہیں پاتے ۔کہتے ہیں ’’متبادل کیا ہے ؟ تحریکِ انصاف ؟ اُسے تشکیلِ نَو کی ضرورت ہے ۔ عہدیدار بدل ڈالنے کی کہ بعض تو باقاعدہ جرائم پیشہ ہیں ۔دہشت گردی پر عمران خاں کا مؤقف بچگانہ ہے ۔اقتدار مل بھی جائے تو بے سود اور نتیجہ ناکامی‘‘۔یہی بات تو میاں نواز شریف صاحب نے کہی تھی کہ جن سے ایک صوبہ نہیں سنبھالا جا رہا ، وہ پورے ملک کو کیا سنبھالیں گے ۔ ویسے بھی جتنے منصوبے نواز لیگ شروع کر چکی ہے اُن کا اگر ایک تہائی بھی پایۂ تکمیل تک پہنچ گیا تو وسط مدتی کیااگلے پندرہ سالوں تک بھی نواز لیگ کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ۔
سینئر لکھاری نے یہ بھی فرمایا ’’ وزیرِ اعظم لندن گئے اور سرمایا کاروں کو ترغیب دینے کی کوشش کی ۔ایک نے کہا ’’ آپ کی اپنی دولت تو لندن میں پڑی ہے ‘‘۔ تب فرمایا ’’حکمرانی کے لیے پاکستان موزوں ہے مگر قیام کے لیے ہر گز نہیں ‘‘۔ قُرآن و حدیث کے بغیر لقمہ نہ توڑنے والے سینئر لکھاری شاید نہیں جانتے کہ دینِ مبیں میں تہمت لگانے والے کے لیے سخت ترین عذاب ہے ۔ لیکن وہ ایسی باتیں کرجاتے ہیں جن کا سَر ہوتا ہے نہ پیر ۔اُن کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ’’با خبر ذرائع‘‘کا حوالہ دیتے ہیں اور اکثر یہ بھی کہتے ہیں ’’نام نہیں بتاؤں گا لیکن اگر کسی نے زیادہ تنگ کیا تو بتا
بھی دونگا‘‘۔لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اُنہوں نے ’’باخبر ذرائع‘‘ کا نام بتایا ہو ۔وجہ شاید یہ ہے کہ مَن گھڑت باتوں کے راوی وہ خود ہی ہوتے ہیں ۔