شب برات آرہی ہے ۔ آہا ہم پٹاخے چلائیں گے، حلوے کھائیں گے۔ یہ وہ فقرے ہیں جو ہم نوجوانوں اور بچوں کی زبان سے سنتے ہیں مگر ایسے الفاظ بچے تو بچے کسی بڑے کی زبان سے بھی نہیں سنتے کہ کہ شب برات آرہی ہے اور اللہ جانتا ہے کہ کس کے حساب کتا ب میں کیا لکھاجاتا ہے اور ہم اپنے رب سے معافی مانگے گے یا ا س رات عبادت کریں گے۔حتٰی کہ مساجد میں بھی سارا دن چندہ جمع کیا جاتا ہے اور عشاء کے بعد مولوی صاحبان تقاریر کرکے اور مٹھائی تقسیم کرکے اپنے اپنے گھر وں کو چلے جاتے ہیں۔مساجد کو لائٹنگ کرکے سجایا جاتا ہے مگر اس میں عبادت کے لیے اجتماعی کام نہیں کیا جاتا ہے۔ جون کے ماہ ہر بندہ دنیاوی بجٹ کا منتظر ہوتا ہے کہ کس چیز میں اضافہ ہوا ہے اور کس میں کمی مگر اس بجٹ کی طر ف کوئی نہیں سوچتا اور دیکھتا کہ اللہ رب العزت جانتے ہیں کہ کس کے کا ساتھ کیا ہوگااور کیا ہونا ہے۔ دنیا وی بجٹ کی سارا سال تیاری کی جاتی ہے مگر اس بجٹ کی کوئی تیاری نہیں کرتا۔
شعبان کے مہینے کی پندرہویں رات کو شبِ برات کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برات کے معنی قسمت کے ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ و استغفار کرکے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بے شمار مسلمان جہنم سے چھٹکارا حاصل کرتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں۔ اس رات کوعربی میں لیلۃ المبارک یعنی برکتوں والی رات اور رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
اسے تقسیمِ امور کی رات بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ یا وقت آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ اِس شب کی بے شمار خصوصیات میں یہ بھی ہے کہِ زم زم کا پانی بڑھ جاتا ہے ،ہر اَمرونہی کا فیصلہ ہوتا ہے ،بندوں کی عمر ،رزق ، حوادث،مصائب و آلام، خیر و شر ،رنج و غم،فتح وشکست،ذلت وعزت،قحط سالی و فراوانی،غرضیکہ کے تمام سال میں ہونے والے افعال اِس شب مبارکہ میں اْس محکمہ سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو سونپے جاتے ہیں جس پر آئندہ سال عمل کرتے ہیں۔
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ کام سونپا جاتا ہے ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔
چونکہ اس رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
یہ مغفرت کی رات بھی ہے۔ شبِ برات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ ہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے’’۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے’’۔ (التحریم)
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔ بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
رحمت کی رات شبِ برات فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’’جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ )
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں شبِ برات کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برات ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں۔رحمتِ خداوندی اس شب میں ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ شبِ برات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے ا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو’’
نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بد نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرے کا باعث بنتے ہیں اور یہ شیطانی عمل ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ناراض ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ’’۔ (بنی اسرائیل)
یہ بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے ،اٹھو ! اے عاصیو اور دوڑو ا پنے ربّ کی طرف کہ آج سر شام سے مغفرت کی ندائیں ہورہی ہیں،منالو اپنے ربّ کو کہ یہ موقعہ ہے لْوٹ لو اِس رات کی عطائیں اور نوازشیں کہ پھر نہ جانے اگلے سال یہ موقعہ ملے نہ ملے، اْس کا فضل و کرم ہمیں اپنی پناہ میں لینے کیلئے بے چین ہے،اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اِس فضل و کرم سے کتنا اپنا دامن بھرتے ہیں ۔آئیے آج اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعا کر یں کہ و ہ ہمیں اِس خدائی رات میں اپنی اطاعت و عبادت اور تو بہ و استغفار کی توفیق کے ساتھ اپنی اور اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا موقع عطا فرمائے اور ہم پر اپنی رحمت و عطا کے دروازے کھول دے (آمین )۔