کے ایم خالد
جناب وزیر خزانہ
واہ فاقہ ای حکومت پاکستان
عنوان :درخواست برائے رد بجٹ
جناب عالی!
گزارش ہے کہ ہر حکومت کو بجٹ دستاویزات کی تیاری کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔’’اقتصادی ماہرین‘‘ کی فوج ہے جو عوام کی حالت بدلنے اور حکومت کو اس میدان میں کامیاب کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔اس تمام تر تیاری کے باوجود اپوزیشن کا پہلا جملہ یہی ہوتا ہے ’’مزہ نہیں آیا ‘‘کچھ اپنے آپ پر ہی مشتمل پارٹیاں کچھ ذیادہ ہی کھپ مچانے کی کوشش کرتے ہیں تو سپیکر کو مجبوراً ان کے مائیک کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے جنہیں متاثرہ فریق نادیدہ قوت کا ہاتھ قراردیتے ہیں۔
جناب ۔۔۔ایک دور تھا جب پاکستان کے بجٹ کو عوام ایک آئیڈیل بجٹ قرار دیتے تھے ٹیکس پروگرام کا ’’خونی کھیل‘‘ سال میں ایک مرتبہ ہی کھیلا جاتا تھاپٹرول ،بجلی،گیس اشیائے خورد نوش کی قیمت بجٹ کے موقع پر ہی بڑھانے کی اجازت ہوتی تھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو پانچ فیصد اضافہ کردیا جاتا لیکن کسی وزیر خزانہ نے مزدور کی مزدوری کی بات نہیں کی تھی اور مزدور کو مارکیٹ کے ’’کھتیریوں‘‘ کے حوالے کر دیا جاتا تھا لیکن اس وقت کے مزدورکی گزراوقات سرکاری ملازم سے بہتر تھی ۔
تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور میں مزدور کی ’’تعریف ‘‘ کی گئی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر سیاسی پارٹیاں اپنا پنڈال گرم کرتی ہیں ۔سب کا دعوی ہے کہ اگران کی پارٹی اقتدار میں آ گئی تو وہ مزدور کی قسمت بدل دے گی ۔مگر جب مزدور اپنی مزدوری جو کہ حکومت وقت نے مقرر کی ہے وصول کرتا ہے تووہ مزدوری کسی کریانہ فروش کے ہاتھوں میں پگھل کر نیچے گر جاتی ہے اسکے باپ کی کھانسی ،ماں کی شوگر ،بیوی کے پیوند لگے کپڑے اور منے کے ننھے پیروں کی چپل کے لئے وہ اپنی قوت بازو اور قسمت پر شاکر ہے۔
اب جبکہ روز ہی بجٹ سنایا جا رہا تو پھر ہر سال بجٹ کی کیا ضرورت ہے کیوں جون کی گرمی میں بجٹ کا رولا ڈالا جاتا ہے کیا اس بجٹ سے عوام کی حالت میں کوئی فرق پڑا ہے ’’ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ‘‘یہ مزدور کی اوقات تلخ ہی رہنی چاہئے اگر یہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو گئے تو پھر آوے آوے ،جاوے ،جاوے کون کرئے گا ،کون جون میں مارچ کرئے گا،کون جون کی تپتی دوپہروں اور دسمبر کی کڑکتی سردیوں میں پنڈال بھرے گا ،کون دھرنے دے گا۔
گاما بی اے ،بھٹہ مزدور
خوشحال پورہ ،دھوکہ منڈی
***
جناب وفاقی وزیر ریلوئے
عنوان :درخواست برائے ٹرین مارچ
جناب عالی !
گزارش ہے کہ فدوی نے ایک سیاسی پارٹی بنائی ہوئی ہے جسے مجھ سے بے تکلف نہ ہونے والے دوست تانگہ پارٹی کہتے ہیں ۔جیسا کہ میڈیا کے ذریعے آپ کے علم میں یہ بات آ گئی ہوگی کیونکہ فدوی کی پارٹی کے میڈیا سیل نے نے اپنے شہر میں رکشوں وغیرہ کے ذریعے کافی تشہیر کا بندوبست کیا تھا جسے رکشہ برادران نے بے لوث ہو کر میرے شہر میں بلے بلے کروا دی ہے اسلام آباد میں چونکہ رکشے کا داخلہ بند ہے اس لئے وہاں تشہیری مہم ذرا کمزور ہے لیکن اخبارات اور الیکڑونک میڈیا کو شائد اپنے سیاسی ٹاک شوز کے لئے کوئی ایشو نہیں مل رہا تھا سو بہت سے چینل مجھے رات ہوتے ہی آن لائن کر لیتے ہیں اور میں ٹرین مارچ پر دل کھول کر اپنی بڑاس نکال لیتا ہوں ۔
جناب ۔۔۔جیسا کہ آپ کے علم میں ہو گا کہ فدوی نے ایک عد د ٹرین کا ٹکٹ،جس ٹرین پر میں مارچ کرنا چاہتا ہوں اپنے نام سے خرید لیا ہے ۔میں نے ایک ٹی وی پر آپ کا بیان سنا ہے اور شائد آپ میرے دل کی بات سمجھ گئے ہونگے۔آپ نے بجا فرمایا کہ میں کہاں سپیشل ٹرین کی بکنگ کرواؤں ،چلو کہیں سے انتظام کرکے کروا بھی لوں تو میں نے بوگیاں کہاں سے بھرنی ہیں ۔مجھے بہت سے مسافروں کے فون موصول ہوئے ہیں جنہیں میرے ساتھ سفر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔چونکہ میں اپنا ٹکٹ کٹوا چکا ہوا اس لئے آپ کا محکمہ اس ضمن میں کوئی کاروائی نہیں کر سکتا چاہے مجھے اکیلے کو اس ٹرین مارچ میں شرکت کیوں نہ کرنی پڑے یہ مارچ ہو کر رہے گا اصل بات تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے۔
میری خواہش ہے کہ آپ فدوی کو اپنے ہاتھوں ٹرین مارچ کے لئے راولپنڈی اسٹیشن سے پھولوں کے ہار سمیت رخصت کریں یا پھر لاہور اسٹیشن پر پھولوں کی پتیوں اور پیلے رنگ کے کپڑے پہنے ڈھول والوں کے ساتھ ’’ڈگا‘‘ لگاتے میرا استقبال کریں کیونکہ یہ وزارتیں تو آنے جانے والی چیزیں ہیں کل کلاں میں بھی آپ کی پارٹی کا وزیر ریلوئے لگ سکتا ہوں ۔
ہر اسٹیشن پر ٹرین مارچ کے شرکا سے خطاب سمیت بہت سی خواہشات کے ساتھ
العارض
شیخ عبد المجید
***
جناب تھانہ انچارج
عنوان : درخواست برائے درج کئے جانے ایف آئی آربرائے چوری شدہ شاعری
گزارش ہے کہ فدوی آپ کے تھانے کی حدود میں ایک مضافاتی علاقے موضع ہو شیار سے تعلق رکھتا ہے ۔اس علاقہ کی زمین شاعری کے لئے بہت زرخیز ہے اور یہاں روز بروز نئے شاعر پیدا ہو رہے ہیں ۔فدوی اس علاقے کا ایک مشہور شاعر ہے جس کا کلام علاقے کے بھانڈوں اور بینڈ باجے والوں میں بہت مشہور ہے فیس بک پر فدوی ہوشیار بھائی کے نام سے مشہور ہے۔فیس بک پر بھائی کے کلام پر لائک کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔بھائی کا کلام تقریبا پانچ سو صفحات تک جا پہنچا تھا ۔جسے کسی شاعری دشمن نے رات کے اندھیرے میں چرا لیا اب وہ ناہنجار میرے کلام کو اپنے نام کے ساتھ فیس بک پر روزانہ اپ لوڈ کرتا ہے ۔اس کا یہ فعل میری بدنامی کا باعث بن رہا ہے اور علاقہ کے لوگ جو میری شاعری کے معترف تھے مجھے چربہ اور سرقہ کے نام سے پکارتے ہیں ۔ آپ کے حضور فدوی اس بات کا اظہار کرتے کوئی شر مندگی محسوس نہیں کرتا کہ بھائی نے تک بندی سے کلام موزوں تک کا سفر کیسے طے کیا۔علم عروض تو وہ بھول بھلیاں ہیں کہ شائد ہی کوئی شاعر اس دشت کی مکمل سیاحی کر سکے ۔فدوی کو چند قابل بھروسہ لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ آپ جناب بھی شاعری سے شغف رکھتے اور زخمی تخلص فرماتے ہیں لیکن آپ کو جو کلام میرے ہاتھ لگا ہے وہ کلام موزوں نہیں ہے اور علم عروض پر پورا نہیں اترتا۔میں آپ جناب کے کلام کو موزوں کر سکتا ہوں بلکہ آپ سے کیا پردہ ایک ویب سائٹ بھائی کے ہاتھ لگی ہے جو کہ آپ کے کلام کو موزوں کرنے میں آپ کی معاون ثابت ہو سکتی ہے فدوی نے بھی وہیں سے استفادہ کیا ہے ۔
جناب ۔۔۔گزارش ہے کہ پانچ سو صفحات پر میری ایک ہزار کے قریب شاعری کی مختلف اصناف درج ہیں میں نے آپ جناب کا ایک کام کیا ہے تو فدوی کی بھی شاعری کی چوری کی ایف آئی آر کاٹی جائے تاکہ بھائی اسے فیس بک پر مشتہر کرکے اپنی روز بروز پھیلنے والی بدنامی کو روک سکے۔
العارض
ہوشیار بھائی،ہوشیار پور