بیجنگ (یواین پی) جرمن وزیر خارجہ اینا لینا بیربوک نے چین اور دیگر ممالک پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ترقی پذیر ممالک میں مزید سرمایہ کاری کریں۔ انہوں نے موسمیاتی مسائل پر چین کے ساتھ تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ تاہم، تعجب کی بات یہ ہے کہ جہاں چین موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور نئی توانائی کی ٹیکنالوجیز کو فروغ دے رہا ہے، وہیں کچھ مغربی ممالک نے امتیازی پالیسیاں اپنائی ہیں اور وہ نئی توانائی میں “حد سے زیادہ پیداوار” کے مفروضے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ یہ نہ صرف نیوانرجی انڈسٹری کی ترقی میں رکاوٹ ہے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا ،خاص کر ترقی پذیر ممالک کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔جب موسمیاتی تبدیلی کی بات آتی ہے تو چین سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور پاکستان کا کاربن اخراج دنیا کے 1 فیصد سے بھی کم ہے، وہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہ ممالک میں شامل ہے۔ اس معاملے پر ترقی یافتہ ممالک کو تاریخی ، قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے صنعتی انقلاب کے دوران بڑی مقدار میں فوسل فیول جلایا اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نقصان دہ گیسز گرمی کا سبب بنیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد ترقی یافتہ ممالک امیر ہو گئے ،لیکن موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات تمام بنی نوع انسان کو برداشت کرنا پڑے۔ ترقی پذیر ممالک کو اکثر نئی توانائی کی جانب منتقلی میں زیادہ لاگت اور ناکافی فنڈز کے تضاد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک ،ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنے وعدوں کو مکمل طور پر پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، یہاں تک کہ کچھ ممالک نے کاربن ٹیرف جیسی یکطرفہ ماحولیاتی پابندیاں بھی نافذ کی ہیں، جس سے ترقی پذیر ممالک پر بوجھ اور عالمی عدم مساوات بڑھ گئی ہے۔بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا تخمینہ ہے کہ 2030 میں نئی توانائی کی گاڑیوں کی عالمی مانگ 45 ملین اور نئی نصب شدہ فوٹو وولٹک صلاحیت کی عالمی طلب 820 گیگاواٹ تک پہنچ جائے گی ۔موجودہ پیداواری صلاحیت مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے سے کوسوں دور ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین کی الیکٹرک گاڑیوں اور سولر پینلز کی “حد سے زیادہ پیداوار” کا پرچار بالکل بے بنیاد ہے۔حالیہ برسوں میں، چین کی نئی توانائی کی صنعت نے تیزی سے ترقی کی ہے۔اس کی اہم وجوہات تکنیکی جدت کا تسلسل ، پیداوار اور سپلائی چین کا مکمل نظام اور مناسب مارکیٹ مسابقت ہے۔ بی وائی ڈی کی الیکٹرک گاڑی “سیل” کے 75 فیصد پرزے اندرون ملک تیار کیے گئے ہیں، شیاؤ می کمپنی کے الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے اعلان سے ان گاڑیوں کی باضابطہ لانچنگ تک محض تین سال کا وقت لگا، یہ سب نام نہاد”سرکاری سبسڈی”کے بجائے ٹیکنالوجی میں مسلسل کی جانے والی سرمایہ کاری، مکمل پیداواری اورسپلائی چین اور بہت بڑی مارکیٹ سے فراہم کی جانے والی مسابقت کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔اگرچہ چین ترقی پذیر دنیا کا رکن ہے لیکن حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں چین کی خدمات ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں ہے۔عالمی سطح پر ،خاص کر بیلٹ اینڈ روڈ سے متعلقہ ممالک میں سبز توانائی میں چین کی سرمایہ کاری روایتی توانائی سے بڑھ گئی ہے۔ 2022 میں، چین کی پون بجلی اور فوٹو وولٹک مصنوعات کی برآمدات نے دوسرے ممالک کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو تقریباً 573 ملین ٹن کم کرنے میں مدد فراہم کی، جو عالمی قابل تجدید توانائی سے کاربن اخراج میں کمی کا تقریباً 41 فیصد تھا ۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ چین نے نئی توانائی کی صنعت میں فعال طور پر سرمایہ کاری کی ہے اور قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بہتر اور زیادہ قابل رسائی حل فراہم کر رہی ہیں۔درحقیقت، چین کی درآمد شدہ فیول وہیکلز میں جاپانی اور کوریائی برینڈز امریکی برینڈز کے مقابلے زیادہ مقبول ہیں، کیونکہ امریکی گاڑیاں زیادہ مہنگی ہیں اور زیادہ فیول استعمال کرتی ہیں۔ امریکہ سمیت تمام فریقوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ حریفوں پر الزام تراشی کے بجائے، اپنی مصنوعات اور مارکیٹ کی طلب پر توجہ مرکوز کرنا ہی صحیح راستہ ہے۔جیسے جیسے ماحولیاتی تحفظ اور آب و ہوا کے مسائل پر صارفین کی توجہ زیادہ ہوئی ہے، نئی توانائی کی گاڑیاں، آٹوموبائل انڈسٹری کی ترقی کا رجحان بن گئی ہیں۔ 18ویں بیجنگ انٹرنیشنل آٹو شو میں، بڑی کار کمپنیز نئی توانائی کی گاڑیوں پر توجہ دے رہی ہیں۔ آٹو شو کے دوران تقریباً 20 نیوانرجی برانڈز نے پہلی بار حصہ لیا اور 278 نئے ماڈلز جاری کیے گئے جو کہ ایک بلند ریکارڈ ہے۔چین کے دورے پر آئے ہوئے ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے اٹھائیس اپریل کو اپنی ایک بات چیت کے دوران نشاندہی کی کہ “مستقبل میں تمام کاریں الیکٹرک ہوں گی۔”امریکی مصنف جیکب ڈریئر نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ “امریکیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ چین کی کم لاگت گرین ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی صلاحیت دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے فائدہ مند ہے، اور شاید ہم سب کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ ہم سب کو بڑے پیمانے پر اور تیزی سے قابل تجدید توانائی کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔”