غزہ (یواین پی)ناروے، اسپین اور آئرلینڈ نے 22 تاریخ کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے رپورٹ کیا کہ اس تاریخی اور علامتی اقدام سے اسرائیل کو ایک سفارتی دھچکا پہنچا ہے اور مزید یہ پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل عالمی سطح پر تیزی سے تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار گارجین نے تبصرہ کیا کہ یورپی ممالک کی جانب سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے رجحان کا نمایاں اثر پڑے گا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین اسرائیل امن عمل پر امریکہ کا “غلبہ” کمزور ہو رہا ہے۔کئی سالوں سے، فلسطینی ریاست کی تعمیر کا عمل مسدود ہے، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل کے کٹر اتحادی، امریکہ کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ ستمبر 2011 میں، فلسطینی صدر محمود عباس نے اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے حصول کے لیے ایک درخواست جمع کرائی۔ امریکی شدید مخالفت کے باعث فلسطین کو اپنی درخواست معطل کرنا پڑی ۔ لیکن اسی سال 31 اکتوبر کو یونیسکو نے فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کا فیصلہ کیا ۔ رواں سال اپریل کے اوائل میں، سلامتی کونسل کے 15 ارکان نے 13 سال بعد دوبارہ اقوام متحدہ میں شمولیت کے لیے فلسطین کی درخواست کا جائزہ لیا، اس بار اس کے حق میں 12 ووٹ، مخالفت میں 1 ووٹ اور 2 غیر حاضر رہے۔امریکہ واحد ملک رہا جس نے ویٹو کا استعمال کیا ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ فرانس، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر امریکی اتحادیوں نے اس کےحق میں ووٹ دیا، جب کہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں شرکت سے گریز کیا۔اس کے بعد ، 10 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 10 ویں ہنگامی خصوصی اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس کے حق میں 143 ووٹ، مخالفت میں 9 ووٹ اور 25 نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔اس قرارداد نے اس بات کی تصدیق کی کہ فلسطین اقوام متحدہ کی رکنیت کی اہلیت پر پورا اترتا ہے اور اسے اقوام متحدہ کے رکن کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے.اپریل کے وسط سے مئی کے اوائل تک، بارباڈوس، جمیکا اور بہاماس سمیت کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 142 نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی اتحادیوں میں بھی، صورتحال بدل رہی ہیں: آسٹریلیا نے حال ہی میں یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کی حمایت کا امکان ظاہر کیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ امن معاہدے کے بغیر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا معاملہ اب فرانس میں کوئی “ممنوع موضوع نہیں رہا”۔اقوام متحدہ کی یونیسکو اور جنرل اسمبلی سے لے کر امریکی اتحادیوں تک، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ فلسطین کی ریاست کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے، فلسطینی عوام کے جائز حقوق کا تحفظ اور حمایت ایک مرکزی دھارے کی آواز بن گئی ہے، اور امریکہ کی طرف داری لوگوں کے دلوں میں تیزی سے ناقابل قبول ہوتی جا رہی ہے.20 مئی کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے عدالت میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے الزامات پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع گیلانٹے اور حماس کے تین رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کی درخواست دائر کی ہے ۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے 16 مئی کو ایک بار پھر اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ دائر کیا، جس میں اسرائیل پر غزہ کی پٹی میں “نسل کشی” میں “ایک گھناؤنی نئی حد” تک پہنچنے کا الزام لگایا گیا۔مصر ،لیبیا، نکاراگوا، کولمبیا اور دیگر ممالک نے جنوبی افریقہ کی حمایت کی۔ درحقیقت، رواں سال کے شروع میں، بین الاقوامی عدالت انصاف نے “عارضی اقدامات” جاری کیے تھے جن میں اسرائیل سے نسل کشی جیسے مجرمانہ فعل کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی تعمیل کرنے، غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف “نسل کشی” کو روکنے، اور غزہ کی پٹی تک انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا کہا گیا۔غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی عوام کو درپیش انسانی بحران کا خاتمہ عالمی برادری کا زبردست اتفاق رائے بن چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ فلسطین اسرائیل مسئلے پر طرف داری کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے لیکن انصاف مراعات یافتہ مفادات کو یقینی طور پر شکست دے گا اور انسانی ضمیر بالادستی کو ضرور شکست دے گا۔ 25 مارچ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2728 منظور کی، جس میں طویل مدتی اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کے لیے رمضان کے دوران غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطین اسرائیل تنازع کے نئے دور کے بعد یہ سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کی جانے والی پہلی قرارداد ہے جس میں فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس بار آخر کار امریکہ نے ووٹنگ سے گریز کرتے ہوئے قرارداد سے متعلق رضامندی ظاہر کی۔گزشتہ سال 7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 35,709 افراد ہلاک اور 79,990 زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے ایک تجزیے کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں سے کم از کم 56 فیصد یا تقریباً 20,000 افراد خواتین اور بچے تھے۔ فلسطینی بچوں کو پہنچنے والے نقصانات کو بیان کرتے ہوئے وکیل عدیلہ ہاشم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے تقریباً تمام بچوں کو ” زندگی بھر کے لیے تکلیف دہ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔” 6 مئی کو چینی صدر شی جن پھنگ نے پیرس میں فرانسیسی صدر میکرون کے ساتھ صحافیوں سے مشترکہ ملاقات میں واضح کیا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کا المیہ آج تک جاری ہے جو کہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔غزہ میں مکمل اور پائیدار جنگ بندی کو فوری طور پر حاصل کیا جانا چاہیے، فلسطینی عوام کو درپیش انسانی بحران کا خاتمہ ہونا چاہیے، اور عالمی برادری کو مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔