بیجنگ (یواین پی) تین دنوں کی بات چیت اور مذاکرات کے بعد، 14 فلسطینی دھڑوں نے بیجنگ میں مشترکہ طور پر “تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط کرنے سے متعلق بیجنگ اعلامیے” پر دستخط کیے۔ اعلامیے میں پی ایل او کو فلسطینی عوام کا واحد جائز نمائندہ قرار دیا گیا اور غزہ میں جنگ کے بعد کی حکمرانی اور قومی مصالحت کی عبوری حکومت کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا۔ یہ سخت محنت سے حاصل کی گئی مفاہمت ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کی جانب ایک اہم قدم ہے، جس سے مظلوم فلسطینی عوام میں مستقبل کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ فلسطینی دھڑے بیجنگ میں مصالحت کرنے میں کامیاب کیوں ہوئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر چین ہمیشہ امن اور انسانیت کے ضمیر کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔ گزشتہ سال بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت سے لے کر مختلف فلسطینی دھڑوں کی جانب سے بیجنگ اعلامیے پر دستخط تک مشرق وسطیٰ میں انتہائی اہمیت کی حامل دو مصالحتوں نے ثابت کیا ہے کہ چین نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ کی پرامن ترقی میں مخلصانہ طور پر مدد کی ہے اور ہمیشہ عرب ممالک کا مخلص اور قابل اعتماد دوست رہا ہے۔گزشتہ سال اکتوبر میں فلسطین اسرائیل تنازع کے نئے دور کے آغاز کے بعد سے چینی صدر شی جن پھنگ نے کئی دفعہ چین کے موقف اور تجاویز پر روشنی ڈالی اور تنازعہ کا پھیلاؤ روکنے کے لئے فوری جنگ بندی پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بنیادی راستہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد اور جلد از جلد مسئلہ فلسطین کے جامع، منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دینا ہے۔ سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران چین نے فلسطین اسرائیل تنازع کے موجودہ دور کے آغاز کے بعد پہلی بار فائر بندی کی قرارداد منظور کرنے کو بھی فروغ دیا۔ فلسطینی دھڑوں کے بیجنگ ڈائیلاگ میں چین نے غزہ تنازعے کی موجودہ مشکل حالت کے پیش نظر “تین مراحل” پر مشتمل اقدام پیش کیا، جس کی تمام فلسطینی دھڑوں نے حمایت کی ہے۔ بیجنگ اعلامیے پر دستخط سے بین الاقوامی برادری کو ایک واضح پیغام ملاہےکہ تمام فلسطینی دھڑوں کو احساس ہے کہ صرف ایک ہی آواز سے بات کرنے سے ہی انصاف کی آواز بلند ہوسکتی ہے اور یہ کہ قومی آزادی کا نصب العین صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے جب وہ ہاتھ میں ہاتھ ملا کر آگے بڑھیں۔