دونوں رہنماﺅں کی ملاقات وزیراعظم ہاﺅس میں 3 بجے ہوگی ، مولانا فضل الرحمان اتحاد تنظیمات مدارس کا موقف وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے
اسلام آباد(یو این پی)وزیراعظم شہبازشریف کا مدارس رجسٹریشن بل کے معاملے پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کرکے انہیں آج ملاقات کیلئے دعوت دیدی ، وزیراعظم ہاوس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو آج بروز جمعہ دوپہر تین بجے ملاقات کیلئے مدعو کیا ہے۔دونوں رہنماوں کی ملاقات وزیراعظم ہاوس میں ہوگی جبکہ مولانا فضل الرحمان اتحاد تنظیمات مدارس کا موقف وزیراعظم کے سامنے رکھیں گے۔ وزیراعظم کے رابطے کے بعد مولانا فضل الرحمان نے مفتی تقی عثمانی سے رابطہ کیا اور ملاقات سے متعلق مشاورت کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے نئی تجاویز دی گئیں تو مولانا فضل الرحمان اتحاد تنظیمات مدارس سے مشاورت کیلئے رجوع کریں گے۔واضح رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مدارس بل اب ایکٹ بن چکا ہے اب ہم کوئی ترمیم قبول نہیں کریں گے اور یہ بات نہ مانی گئی تو پھر ایوان کی بجائے میدان میں فیصلہ ہوگا۔جمعیت علماءاسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ راز تو آج کھلا ہے کہ ہماری قانون سازی آئی ایم ایف کی مرضی سے ہو رہی تھی۔مدارس رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود تھی۔26ویںآئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی (ف)نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں ۔دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں۔ ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمے داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا تھا۔ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں۔مذاکرات کاعمل ایک ماہ سے زائد عرصہ جاری رہا اورتمام حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں آن بورڈ تھیں۔ دلائل سے سمجھانے کے بعد بالآخر مسئلہ ایک حل پر پہنچتا تھا۔دینی مدارس کے حوالے سے بل تھا، دینی مدارس بل کے حوالے سے ہسٹری بتانا چاہتا ہوں۔انہوں نے کہاتھا کہ2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے۔پہلا سوال یہ تھا کہ دینی مدارس کا مالیانی نظام کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا کہ مدارس کا نظام تعلیم کیا ہے؟ تیسرا سوال تھا کہ دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے؟۔ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد جب حکومت مطمئن ہو گئی تو اس پرقانون سازی ہوئی۔ کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے۔ بعد میں کچھ مشکلات آتی رہیں، ہماری خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔وہاں ڈرانے، دھمکانے اور پریشان کرنے کا ایک سلسلہ چل رہا تھا جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی اور 2010 میں ایک مرتبہ پھر معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے حوالے سے کوئی بھی شکایت براہ راست مدرسے میں جاکر نہیں کی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کا اس مدرسے سے الحاق تھا۔