سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کیلئے تھا ، جسٹس مسرت ہلالی

Published on January 8, 2025 by    ·(TOTAL VIEWS 24)      No Comments

کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتاو کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا؟، سوال یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل
اسلا م آباد(یو این پی)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتاو کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا، سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی اس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد آرٹیکل 8(5) اور 8(3) ہے، دونوں ذیلی آرٹیکلز یکسر مختلف ہیں، انہیں یکجا نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا یہ نکتہ کل سمجھ آ چکا، اب آگے چلیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والا فیصلہ پڑھا اور کہا کہ ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔ غلط تشریح کی بنیاد پر کہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا۔ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ شہری تھے۔ فیصلے میں کہاگیا جرم سرزدہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے اس لئے ان کاکیس الگ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یا نہ کریں ۔ موجودہ کیس میں 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے۔ آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے۔چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کے خلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین کے ساتھ وہی برتاو کیا جاسکتا ہے جیسے اے پی ایس سانحہ میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔جسٹس علی مظہر نے پوچھا کہ اس میں انٹرنیشنل پریکٹس کیا ہے؟کیا آپکے پاس کوئی مثال ہے؟ ۔ججز کے سوالوں پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ میرے پاس مثالیں موجود ہیں ،آگے چل کر اس پر بھی بات کروں گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حملہ آوروں کابھی کیا ملٹری ٹرائل ہوگا؟ان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے۔اگر کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلے گا۔ سوال یہ ہے کہ کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق تین کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔خواجہ حارث نے جواب دیا اس کیس میں ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ مستقبل میں کن لوگوں کا ٹرائل ہو سکتا ہے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حد تک ہوسکتا ہے؟۔جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ خواجہ صاحب لگتا ہے آپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، انہوں نے ریمارکس دئیے کہ 5 رکنی بنچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعاف کالعدم کی ہیں، اگر ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا،اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے۔جسٹس نعیم افغان نے مزید کہا کہ اب آفیشل سکرٹ ایکٹ میں 2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے، قانون بتائیں کہ کیا کیا چیز جرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہو گا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے، کہا جاتا ہے پارلیمنٹ سپریم ہے، میرے خیال میں آئین سپریم ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress主题