کسی بھی جمہوری سسٹم میں نظم و ضبط اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس عمل کے لئے پولیس کو عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے بنیادی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں۔ اور اگر اسی پولیس سے ذاتی مفادات کے لئے حصول کیلئے غلط کام کروائے جائیں تو پھر معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا ہوتا ہے جسے کنٹرول کرنا حکومت وقت کے بس نہیں رہتا۔ ماہ رمضان المبارک سے قبل پولیس کی جانب سے قائم کی گئی شہر بھر کی مختلف چوکیاں خالی نظر آرہی تھیں۔ مگر ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ایک چوراہے پر درجنوں کے حساب ٹریفک پولیس اہلکار تعینات دکھائی دیئے ۔ انہیں جس مقصد کیلئے ڈیوٹی کی انجام دہی کیلئے تعینات کیا گیا ہے یہ اس سے بلکل غافل ہے اور یہ پولیس اہلکار ماہ رمضان المبارک کے اس بابرکت کے مہینہ کے موقع پر اپنی پرانی عادت و حرکات سے باز نہیں آئے ‘مختلف چوراہوں پر تعینات یہ پولیس اہلکار اپنی جیب گرم کرنے میں لگے ہیں ۔ جبکہ دوسری جانب رمضان آرڈینس کے تحت رمضان المبارک میں دن میں کھانے پینے والے اسٹال ‘ہوٹل وغیرہکھلا رکھنا قانوناً جرم ہے لیکن ہماری پولیس اپنے ہی قانون کی دھجیاں اڑاتی نظر آتی ہے 5000روپے روزانہ کے ہدیہ پر پورا دن ہوٹل یا کھانے پینے کے اسٹال کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ (جتنا بڑا منہ اتنا بڑ چماٹ )ٹریفک پولیس کا یہ عالم ہے کہ چھوٹی چھوٹی گاڑیوں سے لیکر بڑی بڑی گاڑیوں والے سب ہی ان کے زیر عرتکاب ہے ۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
اور رہی چالان کی بات تو جناب یقین جانئے یہ پولیس اہلکار سرکای کی جانب سے مقررہ کردہ چالان فیس سے انتہائی کم فیس وصول کررہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے یہ چالان کی رقم سرکار کے کھاتے میں نہیں بلکہ سرکار کی جانب سے تعینات کئے گئے افسر شاہی کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے ۔ جس سے ہماری سادہ لوح عوام بلکل واقف نہیں ہے ‘نوجوان لڑکے پولیس چالان سے کسی نہ کسی بہانے بچ نکل جاتے لیکن شامت آتی ہے دیہی عوام کی ،جن کو الف ب کا پتہ نہیں ، یہ پولیس اہلکار انگریزی میں ان کا چالا ن کاٹتے ہیں ۔حیدرآباد کی سڑکوں کی پر روزانہ ہزاروں گاڑیاں جن میں بس ‘منی ٹیکسی ‘سوزوکی‘رکشہ اور گدھا گاڑیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتی ہے ۔ جن میں ہزاروں لوگ سفر کرتے ہیں ۔روزانہ 1000یا 800سو روپے کمانے والوں ان ڈروائیور حضرات کو ہر چکر میں پولیس کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے ورنہ ان کو ناجائز چالان کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ایک منی ٹیکسی والا دن میں مارکیٹ سے بدین اسٹاپ تک ایک چکر 130کا لگاتا ہے جس میں اسے چوراہوں پر تعینات پولیس اہلکاروں کو 40سے 50روپے لازمی دینا پڑتے ہیں ۔ اسی بد تر صورتحال دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ میرا مقصد پولیس کی تعریف یا ان کے ہاتھوں شکار ہونیوالوں کی دل آزاری نہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے والوں کا چہرہ دکھانا ہے پولیس فورس میں شامل شہری بھی ہمارے عزیز رشتہ ،بھائی ،بیٹے اور بزرگ ہوتے ہیں۔چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی افسران کی ڈانٹ ڈپٹ اور گھر والوں کے مسائلوں نے اکثر پولیس ملازمین کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔کیونکہ گھر اور باہر کا تمام نزلہ ان پر گرتا ہے۔گھریلو مسائل ہوں یا باہر کوئی وقوعہ ،دہشت گردی کا مسئلہ ہو یا مساجد کی سکیورٹی،چرچوں کی دیکھ بھال ہو یا افسران کا پروٹو کول ،عوامی خدمت گاروں کے دورے ہوں یا عید شب برات کے تہوار یہی پولیس جوان ہر کام میں پھنسے نظر آتے ہیں۔تھانوں کی حالت زار دیکھیں یا ملازمین کی پھٹی پرانی وردیاں،گشت پر معمور گاڑیاں ہو ں یا پیدل چلتے یہ جوان عجیب سی ہمدردی کے مستحق ضرور ٹھہرتے ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پولیس فورس ہر ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر سر انجام دیتی ہے۔کبھی تو انہیں عادی جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی بدترین کاروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ کئی ایک کو جام شہادت کا رتبہ بھی نصیب ہوتاہے ، جیسا کہ اگر حیدرآباد کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو گذشتہ دو ماہ کے دوران ایک درجن پولیس اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اور اتنی تعداد میں زخمی بھی ہیں ۔ جنہیں حرف عام میں غازی کہا جاتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں ایک پولیس اہلکار اپنے افسر کے حکم کے بغیر اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کرسکتے تو یہ پولیس اہلکار روں کو رشوت لینے اور جعلی چالان کے احکاما ت کو ن صادر کرتا ہو گا ۔۔۔؟؟؟؟؟؟ چند ایک لوگوں کی وجہ سے پورے ڈیپارٹمنٹ یا فورس کا امیج تباہ کر دیا جائے تواس میں قصور کس کاتلاش کیا جائے؟
افواج اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے والوں کیخلا ف میرٹ پر کاروائیاں ہوں ،نہتے اور مظلوم شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا جائے ، قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے ،طاقتور اور مظلوم کیلئے ایک ہی قانون مقرر ہو توپھر کوئی بھی شہری پولیس گردی کا رونا نہ روئے بلکہ ہر شخص کی زبان پر یہی الفاظ ہوں کہ بیچاری ہماری پولیس پر رحم کھاؤ۔انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال نہ کرو انہیں شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ،مظلوموں کی داد رسی کیلئے کام کرنے دو۔کیونکہ یہ لوگ بھی ہم سے اور ہم ان سے ہیں۔کاش ہماری یہ پولیس جس طرح رشورت خوری اور ہر آنے جانے والی گاڑی پر نظر رکھتی ہے اگراسی یمانداری سے دہشت گردوں ‘چوروں اور شہر کا امن خراب کرنے والوں شرپسند عناصر پر رکھیں تو یقین جانئے ہمارا ملک کسی یورپ یا فرانس سے کم نہ ہوگا یہ ہر طرف امن ہو گا، سکون ہوگا ۔پاکستان پولیس زندہ آباد۔پاکستان پائندآباد