پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت سابق حکومتوں کی دس پرسنٹ پالیسیوں و دوسرے ممالک سے کئے گئے خفیہ معاہدوں کے سبب میدانِ کربلا بنے ہوئے وطنِ عزیز کی پاک سرزمین کے باسیوں کو ملک کے اندر ہر حال میں امن قائم کرتے ہوئے ملک کو ترقی وخوشحالی کی ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کا حلف دے کر منتخب ہوئی ،مگر اقتدارسنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف و دیگر معاہدے پڑھنے کے بعد یہ علم ہوا کہ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی پر فوری طور پر قابو ڈالنا اِن کے بس کی بات نہیں لیکن چائنا کے اشتراک سے مستقبل میں لوڈشیدنگ کے مکمل خاتمے کے ایسے ناقابلِ فراموش اقدامات کئے جو ملکی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں اب رہی بات دہشت گردی کی تو اس کا طاقت کے بَل بوتے پر خاتمہ کرنے کی بجائے بذریعہ مذاکرات خاتمہ کرنے کی حکومت نے ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ اُن کی شرائط کے مطابق اُن کے سینکڑوں ساتھی رہا کئے جبکہ وہ لوگ ہمارے جوانوں کو رہا کرنے کی قیمتیں وصول کرتے رہے اور ساتھ ہی اپنی کاروائیاں بھی جاری رکھیں جس سے پاک آرمی کے درجنوں جوان ان مذاکرات کی بھینٹ چڑھ کر جامِ شہادت نوش کر گئے جو کہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں حکومت اس سب کچھ کے باوجود بھی مذاکرات پر ڈٹی مگر شر پسند عناصر نے پاکستانی سسٹم و آئین میں موجود خامیوں کو درست کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے حکومت پر قابض ہو کر اپنا من پسند اسلامی قانون ونظام نافظ کرنے کی رَٹ لگائے رکھی کیونکہ ان کے پیچھے ملک دشمن طاقتوں کا ایک بہت بڑا ہاتھ تھاجو انہیں فنڈنگ کرنے کے ساتھ ساتھ کِسی بھی کر وٹ بیٹھنے نہیں دے رہاتھا ان حالات میں جب حکومت کی برداشت کا پیمانا لبریز ہو گیا تو اُنہیں مجبوراً سخت اقدامات اٹھانا پڑ گئے اور تمام ترسیاسی و سماجی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعدآپریشن شروع کردیا گیا ،اس دوران جب پوری قوم پاک آرمی کیلئے دعا گو تھی تب ماڈل ٹاؤن واقع پیش آگیا ،اورساتھ ہی ہرچینل واخبار پر گُلُو بٹ گُلُوبٹ ہونے لگی،گُلُو بٹ کا تعلق (ن) لیگ سے ظاہر کرتے ہوئے واقع کا ذمہ دار خادمِ اعلیٰ کو ٹھہرایا جا رہا تھا ،اور شک مجھے بھی ہورہا تھا جسے دور کرنے کیلئے میں نے ایک بہت ہی پرانے حلقہ این اے 164 سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی راہنما وممبر قومی اسمبلی سرادار منصب علی ڈوگر ایڈووکیٹ سے رابطہ کیاتو انہوں نے بتایا کہ اس واقع کے پیچھے (ن) لیگ کی صوبائی یا وفاقی قیادت کے ہاتھ کا ہونا تو بہت دور کی بات کسی ورکر کا بھی ہاتھ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی میڈیا پر آنے سے قبل اس واقع کا کسی کو علم تھا اُن کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ نے نہ کبھی جبر کی سیاست کی ہے اور نہ ہی اس پر یقین رکھتی ہے جو کہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ہر ذی شعور اس سے بخوبی واقف ہے، خیر!سردار کی یہ باتیں سُن کر مجھے یقین ہوگیا کہ(ن) لیگ اس معاملہ سے واقع ہی لا علم ہے کیونکہ سردار منصب کو میں ذاتی طور پر جانتا تھاکہ اگر اُن کا بیٹا بھی قصور وار ہو تو وہ اُسے بھی حاجی نہیں بلکہ قصور وار ہی کہتے ہیں اور بیش بہاطاقت و اختیارات ہونے کے باوجود بھی کسی مجرم کی سپورٹ نہیں کرتے چاہے وہ جتنا بھی عزیز ہو اور حلقہ میں شدید ترین سیاسی مخالفت ہونے کے باوجوداُن کی تقریباً20سالہ سیاسی زندگی میں مَیں نے اُنہیں کبھی کسی سے انتقام لیتے ہوئے نہیں دیکھااس لئے مجھے گرفتار گُلُو بٹ کی مسلسل جاری بکواس کے با وجودیقین ہوگیا کیونکہ گُلو بَٹ جیسی ایک دو جنوبی پنجاب کی لعنتوں سے میرا بھی واسطہ رہا ہے جو مخالفین سے پیسے لے کر پارٹی تو کیا اپنے باپ پر بھی کیچڑ اُچھالنے سے باز نہیں آتے اور اُس وقت تک اُچھالتے رہتے ہیں جب تک متعلقہ ٹارگٹ پورا نہ ہو جائے جس کے سبب سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے آج اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں جبکہ مخلص کارکن پَلے داری کرکے پیٹ پال رہے ہیں ،خیر بَٹ کی بکواس کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ اُ دھر لاہور ائیر پورٹ پر انقلاب خان بھی نازل ہو گئے جن کے ساتھ ہی سونامی خان بھی میدان میں کود پڑے کہ ہم بھی نہ پاکستانی سسٹم کو مانتے ہیں اور نہ ہی آئین کویہ سب کرپٹ ہیں،لہذا حکومت کے احتساب و اسلامی نظام کے نفاظ کا وقت آگیا جسے لانگ مارچ کرکے حکومتی تختہ پلٹے ہوئے ابھی ہی نافظ کر دیا جائے گایہ سب سنتے ہی بندوق بھائی کا بھی فون آگیا کہ انقلاب خان تُم قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں اجرت ہم بھی حلال کرکے ہی کھائیں گے ہم قوم کی ایسی تقدیر بدلیں گے کہ ہرامیرہر غریٓب کے گھر میں خود بھتہ پہنچایا کرے گآورنہ سب جاگیٓرداروں کا خاتمہ کردیں گے؟خیر ان چند دِنو کے اندر اندر اور بھی بہت سارے لوگ سنگھار خان ،چوہدری خان و دیگر خان انقلاب خان اور سونامی خان کے ساتھ مِلتے ہوئے ٹاک شوز میں بیٹھ کرخوب شور مچانے لگے ،کہ متعقلہ ٹارگٹ شاید ایسے ہی پورا ہو جائے جس کی اُنہوں نے اُجرت لے رکھی تھی اور وہ ٹارگٹ یہ تھا کہ چند دِنوں کے اندر اندرحکومت کی توجہ دہشت گردی آپریشن سے ہٹا کرآپریشن کومکمل طور پر ہی ناکام بنا دیا ہے اگر ایسا ہوتا نظر نہ آئے تو معصوم شہریوں کو استعمال کرکے حکومتی تختہ پلٹ کر ایسا کر دیا جائے کیونکہ ایسا ہونے سے نہ ملک کے اندر امن قائم ہو گا اور نہ ہی وہ اپنے اندرونی مسائل سے باہر نِکل پائے گا جس کے سبب آخروہ اس قدر کمزور ہو جائے گا کہ ہم بغیر جنگ کے اس پر اپنا ایجنڈامسلط کر لیں گے ،مگر کاہل مزدوروں کو یہ علم نہیں تھا کہ عوامی حمایت چینلز پر بیٹھ کر حکومت مخالف باتیں کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں اس سوچ میں سونامی خان تو تھوڑے ٹھنڈے پڑگئے ہیں جبکہ انقلاب خان کے غبارے میں ابھی ہوا باقی ہے جسے ہم خود نہیں نکلنے دے رہے جو کہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے ،تشویشناک اِس لئے ہے کہ مطالبہ اِن کا بھی دہشت گردوں والا ہی ہے نہ وہ پاکستانی سسٹم کومانتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ آئین کومانتے ہیں مگر دہشت گردوں سے ہم نفرت کرکے اُن کی صفائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ اِنہیں ہم ووٹ دے کر آئندہ وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ دیکھنا چاہتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے ،چاہئے تو تھا کہ ہم ملکی خوشحالی و ترقی کیلئے اِن غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف آپریشن اور دوسرے ممالک میں بیٹھ کر ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے پر پابندیاں عائدکرنے کا مطالبہ کرتے مگر ہم اُن کی آمد پر جشن منانے شروع کر دیتے ہیں ،ذرا سوچئے گاغور کیجئے گاکہ ہم کس طرف جارہے ہیں،آج کیلئے اتنا ہی مزید اگلی بار سہی(فی امانِ اللہ) ۔