عرصہ دراز سے عالم اسلام پر نہ صرف بہت سی بلائیں وارد ہو رہی ہیں بلکہ یہ مسلسل مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہے اگر تو یہ مصائب اور یہ تکلیفیں صرف غیروں کی طرف سے نازل کی جا رہی ہوتیں تو یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ امر ہوتا لیکن اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ عالم اسلام خود ایک دوسرے کے لئے د کھوں اور تکلیفوں کا ذمہ دار ہے اور دو حصوں میں بٹ کر مسلسل سالہا سال سے ایک دوسرے کے لئے مصیبتیں اورمشکلات پیدا کر رہا ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج مسلم ممالک مل کر کشمیر کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے فلسطین کا مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا ،افغانستان میں جاری خون ریز لڑائی ختم ہو چکی ہوتی ،عراق اور ایران کی جنگ گیارہ سال کی طوا لت نہ پکڑتی اور حالیہ دنوں میں فلسطین پر ہونے والی ظالم اسرائیلیوں کی نہتے اور معصوم بچوں عورتوں مردوں پر ہونے والی بمباری اور خونریز یکطرفہ جنگ اور اس کے نتیجے میں آئے دن سننے اور دیکھنے کو ملنے والے اندوہناک اور دلخراش رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات ظہور پزیر نہ ہو رہے ہوتے۔
تیل کی دولت نے بہت سے مسلمان ممالک کو فوائد پہنچائے ہیں ،ساتھ ہی نقصان بھی ہوا ہے ،ان نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ تقویٰ کی روح گم ہو گئی اور دنیا کی اس دولت نے ان کے رحجانات کو یکسر دنیا ہی کی طرف پلٹ دیا،یہ بات ہر ایک کے علم میں ہے کہ جب تک عالم اسلام غریب تھا اس میں تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے لیکن تیل کی دولت نے ان کو دنیا دار بنا دیا ہے۔
شاید کچھ لوگوں کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ دینا کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں سے چار مسلمان حکمران ہیں۔جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔برونائی سے تعلق رکھنے والے حاجی حسان بولخیتاہ جو 22 ارب ڈالر کے مالک ہیں ۔ابو ظہبی کے شیخ خلیفہ زید بن النہان کے پاس 18 ارب کی دولت موجود ہے ۔سعودی عرب کے کنگ عبداللہ 17 ارب ڈالر رکھتے ہیں اور شیخ محمد بن راشد المکتوم 12 ارب ڈالر کی ملکیت رکھتے ہیں ۔افسوس ہے کہ پھر بھی اسلامی ممالک امریکہ کی غلامی کرتے نظر آتے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ کی دی ہوئی اس نعمت پر شکر بجا لاتے اور اس بے حساب ملنے والی دولت کو غریب ممالک کی غربت اور مسائل کو حل کرنے کے لئے استعمال کرتے ،اسی طرح اسلام کی ترویج کے لئے بھی اس کا بھر پور استعمال کرتے ۔ استعماری قوتوں اور طاقتوں کا اس سے مقابلہ کرتے ۔
مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسا ہوا نہیں۔اس کے برعکس مختلف مسلم ممالک نہ صرف آپس میں برسر پیکار رہے بلکہ اپنی ہی عوام کے خلاف ظلم و تعدی کا بازار گرم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔پھراس لازوال دولت کو اپنے عیش وآرام سے بڑھ کر تعیش دکھاوا دولت کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کی کی دھن اور لگن نے ان کو اور بھی بے حس بنا دیا۔مگر انجام کا ر ان کے ساتھ کیا ہوا،اپنے آپ کو اسلام کے خادم کہلانے والے دولت کی اس ریل پیل میں جب حرس و ہوس کی حدوں کو پھیلانگتے ہوئے آگے بڑھے تو دنیا سے اس طرح نیست و نابود ہونے لگے کہ مقام عبرت بن گئے ،صدام حسین اور اس کے بیٹے کی مثال تو ہم سب کی آنکھوں دیکھی ہے۔
فلسطین کی جو موجودہ درد ناک صورتحال ہے اس میں عرب ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان ،کو بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔عوام کے ساتھ ہونے والی ان زیادتیوں سے باز رکھنے کے لئے اپنے وفود بھیجنے کی ضرورت ہے اور ظالم اسرائیلیوں کو معصوم اور نہتے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔مگر یہ سب ہونا اتناآسان نہیں اس لئے کہ عرب بھی آپس میں تقسیم ہو چکے ہیں جب سعودی حکومت ہی اس سارے مرحلے میں خاموش ہو تو پھر کیسے مسلم ممالک کی مظلوم عوام کی حمایت اور مدد کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
کتنے ہی نہتے اور بے گناہوں کا خون ہوچکا ہے اور ابھی نجانے اور کتنے ظلم ہونا باقی ہیں ۔اس لئے فوری طور پر مزاکرات کی راہ اختیار کی جائے،جب ظالم ظلم سے باز نہ آرہا ہو تو بھر پور کاروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔کیا پاکستانی فوج سے بچے کھچے طالبان اسرائیل کی فوج میں جاکر پھٹنے کو تیار ہیں ؟؟ پاکستان میں تو خوب کاروائیاں کر لیں کیا اب اصل مقام پر بھی جانا پسند کریں گے۔؟ْ؟سرزمین فلسطین ان کو پکار رہی ہے ۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلم اقوام کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔