شیخ الاسلام نے فرمایا ہے کہ انقلاب کے بعدکم از کم 10لاکھ’’صالحین‘‘کو شریکِ اقتدار کیا جائے گا۔اُنہوں نے تاجروں،کسانوں،علماء،طلباء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب کوجلد از جلد اپنی اپنی سی ویزمنہاج القرآن میں جمع کروانے کی ہدایت کی ہے تاکہ اُنہیں شریکِ اقتدار کیاجا سکے۔شیخ الاسلام کی اِس ہدایت کے بعدہمیں بھی یقیں ہو چلاہے کہ اب انقلاب’’آوے ای آوے‘‘۔ہمارے اندر تو پہلے سے ہی انقلاب کاٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ہے اور ویسے بھی ہم آجکل’’ویہلے‘‘اور نواز لیگ سے کچھ کچھ مایوس بھی ہیں کیونکہ وہ ہمیں’’اندر کھاتے‘‘کَکھ بھی نہیں دیتی جبکہ ہم پر’’بھاڑے کا ٹٹو‘‘جیسا الزام لگانے والے ہزاروں اِس لیے سوچاکہ کیوں نہ مُرشد کے ہاں اپنی سی وی جمع کروا کر قسمت آزمائی کریں۔
مُرشد نے صرف دس لاکھ افراد کو اقتدار میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ اُنکے چاہنے والے تو ایک کروڑ سے بھی زائد ہیں اور وہ خود فرما چکے ہیں کہ’’ ایک کروڑ نمازی جب باہر نکلیں گے تو انقلاب آ جائے گا‘‘۔ہم سوچتے ہیں کہ اگرصرف دَس لاکھ’’انقلابی‘‘شریکِ اقتدارٹھہرے تو باقی نوے لاکھ کا کیا بنے گا؟۔شاید مُرشد نے اقتدار’’شفٹوں‘‘میں منقسم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہویعنی صبح ایک اقتداری شفٹ،دوپہر کو دوسری،شام کو تیسری اور رات کو چوتھی۔ایسی منصوبہ بندی سے بھی شایدسبھی’’صالحین‘‘کی کھپت تو نہیں ہو لیکن کچھ نہ کچھ گزارہ ہو ہی جائے گا۔اُدھر محترم عمران خاں کی تحریکِ انصاف میں بھی’’صالحین‘‘کی کوئی کمی نہیں اِس لیے شیخ الاسلام کو اُنہیں بھی اقتدار میں حصّہ دینا ہو گااور اب تو جنابِ آصف زرداری نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے’’انقلابیوں‘‘کی حمایت کر دی ہے اِس لیے اقتدار کی چھوٹی موٹی’’چُسکی‘‘پر تو اُن کا بھی حق ہے۔شیخ رشید عرصہ چھ سال سے’’حق کا پرچم لے کر اُٹھو ، باطل سے ٹکراؤ۔۔۔۔مارو یا مَر جاؤ‘‘گاتے پھر رہے ہیں اِس لیے وہ تو شاملِ اقتدار ہونگے ہی البتہ چودھری برادران کے بارے میں شنید ہے کہ اُنہوں نے اپنے وارث مونس الٰہی کو شاملِ اقتدار کرکے خود’’اللہ سے لَو لگانے‘‘کا نہ صرف پروگرام بنا رکھا ہے بلکہ منہاج القرآن میں ایک کونہ بھی تاڑ لیا ہے۔نائن زیرو کے باسیوں کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا کیونکہ وہاں تو سبھی’’صالحین‘‘ہی بستے ہیں۔اب اگر سبھی صالحین کو شریکِ اقتدار کرنا ٹھہر ہی گیا تو پھر پرویز مشرف کا کیا قصور؟۔وہ تو کسی زمانے میں اِن سبھی صالحین کے’’سردار‘‘ہوا کرتے تھے۔ آجکل ہماری طرح وہ بھی’’ویہلے‘‘ہی ہیں لیکن بیمار شمار۔اُنکی نمائندگی کے لیے احمد رضا قصوری کوشامل کیا جا سکتاہے کیونکہ صالح تو وہ بھی ہیں۔مُرشد نے اپنے’’وارثان‘‘جو چہرے مہرے،چال ڈھال،اندازِ گفتگو حتیٰ کہ لباس تک میں بھی اپنے’’عظیم باپ‘‘کی نقل کرتے ہیں،اُن کے بارے میں یہ امر صیغۂ راز ہی میں رکھا ہے کہ اُن کا’’اقتداری عہدہ‘‘ کیا ہو گا؟۔
اُدھر شاہ محمود قُریشی نے یہ تاڑتے ہوئے کہ اُنکی سونامی کی حیثیت تو انقلابیوں کے مقابلے میں’’کَکھ‘‘بھی نہیں،محض اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصّہ بٹورنے کے لیے کہہ دیا کہ اُن کے لانگ مارچ میں 12لاکھ افراد ہونگے۔پھر بھی ایک کروڑ کے مقابلے میں بارہ لاکھ کی کیا حیثیت۔بہتر تو یہی تھا کہ سونامیے بھی ہم انقلابیوں کے ساتھ مِل جاتے اور وہ جو کہتے ہیں کہ’’نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘‘اُس کی عملی تصویر نواز لیگ کو نظر آ جاتی اور اُسے بھی پتہ چل جاتا کہ قوم اگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو’’نُکرے‘‘لگا سکتی ہے تو نواز لیگ کِس کھیت کی مولی ہے۔ویسے تو نواز لیگ نے ایک’’شیر دے پُتر‘‘کو بجلی کے پیچھے لگا دیا کہ شاید اُس کی دھاڑ سے بجلی سہم جائے گی لیکن بجلی پر تو کچھ اثر نہیں ہوا البتہ قوم سہم چکی ہے کیونکہ’’وَڈے وزیر‘‘نے ٹھینگا دکھاتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ’’اللہ اللہ کرو اور گرمی سے مَرو‘‘۔ہمارا انقلاب تو اُونچے ایوانوں پر دستک دے رہا ہے پھر بھی مُرشد نے کمال مہربانی کرتے ہوئے وزیرِ اعظم صاحب کو مناظرے کا چیلنج دے دیا تاکہ حجت تمام ہو سکے لیکن وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے ایک عالم کو دوسرے عالم سے لڑانے کی گھناؤنی سازش کرتے ہوئے نواز لیگ کی طرف سے مولانا طاہر اشرفی کو اکھاڑے میں اتار دیا۔اب مولانا طاہر اشرفی صاحب مُرشد کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن کہاں ایک عام عالمِ دین اور کہاں پیرِ طریقت و شریعت،مجتہدالعصر،شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری۔شاید مولانا اشرفی کو نہیں پتہ کہ میاں نواز شریف صاحب تو شیخ الاسلام کو امام مہدیؑ بھی ماننے کو تیار ہو گئے تھے۔یہ انکشاف مُرشد نے 21جولائی کوایک معروف اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔اُنہوں نے حلفاََ فرمایا’’ایک دِن میاں نواز شریف مجھے کمرے میں لے گئے اور دروازے کی اندر سے’’چٹخنی‘‘لگا کر کہا کہ وہ مجھے امام مہدی ماننے کو تیار ہیں۔بَس اتنا بتا دیں کہ کیا آپ واقعی امام مہدی ہیں تاکہ وہ فخر سے کہہ سکیں کہ امام مہدی کا دیدار کرنے والے پہلے شخص وہ ہیں‘‘۔اینکر یہ سُن کر طنزیہ انداز میں مسکراتا رہا ۔پہلے بھی اُس نے مُرشد کو جھوٹا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور مُرشد کی پرانی’’ویڈیوز‘‘دِکھا دِکھا کریہ ثابت کرنے کی سعی کرتا رہا کہ مُرشد یورپ میں اگر ایک بیان دیتے ہیں تو پاکستان میں اُس کے بالکل اُلٹ۔اُس بَد لحاظ اینکر نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ کِس’’عظیم ہستی‘‘کے سامنے بیٹھا ہے۔یہ بجا کہ وہ اینکراپنی اِس سازش میں اس حد تک توکامیاب رہا کہ مُرشد بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوگئے لیکن ہمارا ایمان ایسے شَر پسندانہ حملوں سے ڈولنے والا نہیں۔اُس اینکر کاایک گھنٹے کا’’لائیو شو‘‘صرف آدھے گھنٹے تک محدود رہا اور پھر کوئی وجہ بتائے بغیر نیوز چینل سے وہ پروگرام یوں غائب ہواجیسے گدھے کے سَر سے سینگ۔اب پتہ نہیں اُس اینکر کا کیا حشر ہوا ہو گا۔ویسے اگراُسے ویسی ہی’’پھینٹی‘‘لگا دی گئی ہو جیسی مُرشد کے’’عقیدتمندوں‘‘نے راولپنڈی پولیس کو لگائی تھی تو ہم خوشی سے باغ باغ ہو جائیں گے۔