غزہ میں اسرائیلی ظلم اور بر بریت جاری ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کانوں میں روئی ٹھونس کر محو خواب ہیں ،اسرائیل کی طرف سے تھوپی گئی اس جنگ کا یہ حال ہے کہ غزہ کا انفرا سٹرکچر پوری طرح تباہ ہو چکا ہے دوہزار سے زائد بے گناہ شہید ہو گئے اور ملکی معیشت کئی برس پیچھے چلی گئی ہے ،ایسے میں مسلم امہ سوائے آہ و بکاہ کے کچھ نہیں کر سکتی اور شہید ہونے والوں کو دل کی گہرائیوں سے دعا ئیں دے رہی ہے،لیکن با اختیار مسلم ممالک کی خاموشی ہر مسلمان کو کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے بے گناہ بہن بھائی کی شہادت پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرح کانوں میں روئی ٹھونس کر اور منہ پر قفل لگا کر صبح و شام معصوم اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوتے دیکھ رہے ہیں ایسے د ل سوز ز اور المناک حالات میں یکجا ہونے کی بجائے ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے ان بااختیار مسلم ممالک کو ڈپلومیسی سے معاملات کو حل کرنے کے واسطے آگے آنا ہو گا نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لکیر تمام مسلم ممالک کے لئے ایک تاریخی دراڑ بن جائے ، فلسطین ،اسرائیل ،مسلم ممالک یا مغربی پالیسیوں سے آج دنیا کا بچہ بچہ جانکاری رکھتا ہے کہ یہ جنگ کب کیوں اور کیسے شروع ہوئی، اس موضوع پر دنیا بھر میں بہت کچھ تحریر کیا جا چکا ہے اور جب تک اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور سفاکی سے باز نہیں آئے گا لکھا جاتا رہے گا لیکن اس حساس کون فلکٹ کو افہام و تفہیم سے حل کرنے میں مسلم ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ، نہیں تو یہ جنگ جاری رہے گی اور اگر مسلم اقوام یکجا نہ ہوئے تو اسرائیل مستقبل قریب میں دیگر اسلامی ممالک پر بھی دھاوا بول سکتا ہے۔
کہتے ہیں خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہوتی ہے جب پڑتی ہے تو اسکی گونج زمانہ سنتا ہے ایسی ہی ایک لاٹھی یہودیوں کو مغربی ممالک میں بھی پڑ رہی ہے ،دیگر یورپی ممالک کے علاوہ اسرائیل جرمنی پر بے انتہا اعتماد کرتا تھا لیکن جرمنی میں یہودیوں کی جو درگت بن رہی ہے اسکی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
یورپ میں بھی یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پرعرصہ دراز سے مقیم یہودیوں کو مسلمانوں سے خطرہ ۔
جرمنی کے معروف میگزین کو ایک کسرتی بدن اور مضبوط اعصاب والے یہودی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ہمارا پیچھا کر رہا ہے اس یہودی کا نام بینی تال ہے اور کچھ عرصہ قبل اسرائیل کی ایلیٹ یونٹ میں کمانڈو کے عہدے پر فائز تھانامعلوم وجوہات پر یونٹ سے نکال دیا گیا اور آج کل جرمنی کی بی ٹی ایس سیکیورٹی ایجنسی کا چیف ہے،اسکا کہنا ہے کہ ہر ہفتے یہودیوں کے پچاس سے زائد مشہور سیکیورٹی ایجنسی کے چیفس یورپین حکومتوں کو مدد کی درخواست کرتے ہیں ، کہ ہمیں مسلمانو ں سے خطرہ ہے ،نامعلوم افراد ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں ،علاوہ ازیں پیرس،لندن برلِن اور دیگر یورپی شہروں میں پولیس روزانہ کئی یہودیوں کے فون اٹینڈ کرتی ہے یہ وہ یہودی ہیں جو خوفزدہ ہیں انہیں اپنی کمیونٹی ،دفاتر اور فیملی کے کھو جانے کا خطرہ لاحق ہے ،ان لوگوں کا رفتہ رفتہ یورپی پولیس سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے لیکن مجبور ہیں کسی اور سے مدد نہیں مانگ سکتے ،بینی تال کا کہنا ہے کہ یورپ میں ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی ایکس سولجر یہودیوں کی املاک اور جان و مال کی حفاظت پر مامور ہیں ،صرف جرمنی میں سیکڑوں یہودی باڈی گارڈزاپنے فرائض انجام دے رہے ہیں،کیا کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یورپ میں بھی یہودیوں کی حالت اتنی تشویشناک ہو سکتی ہے جتنی غزہ پر حملہ ہونے کے بعد درپیش ہے، یہودیوں کے خلاف نفرت اور تشدد سے بھرپور جو رد عمل بیلجئم ،ہالینڈ، فرانس،برطانیہ اور جرمنی میں پایا جا رہا ہے جو نفرت انگیز نعرے بازی،پتھراؤ اور املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں ویڈیوز ، بینرز اور فیس بک پر جو مواد دکھایا جارہا ہے اس سے تمام یہودی لابی شدید خوف میں مبتلا ہے حتیٰ کہ عبادت گاہوں کی دیواروں پر بھی نازیبا الفاظ تحریر کئے گئے ہیں،ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔بر لِن میں اسرائیلی سفیر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں یہودیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالیہ واقعات میں ایک نیا خطرہ درپیش ہے ،ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس ملک میں بھی یہودیوں کے خلاف نفرت اور پروپیگنڈا اتنی شدت اختیار کر جائے گا ،میونخ میں واقع اسرائیلی کلچر کی صدر کا ایک مقامی اخبار کو کہنا ہے کہ موجودہ حالات کو مد نظر رکھ کر ہمیں دکھ کے ساتھ حیرانگی بھی ہے کہ اس ملک میں یہودیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گا ،یہودی جرمنی میں ایک محفوظ زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اب خوف زدہ ہیں کیونکہ ایک نئی دشمنی کا آغاز ہو گیا ہے جس میں جرمن عوام بھی شامل ہیں اور ان حالات میں ہم اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں ۔
اولیور ہوفمین برلِن کا رہائشی ہے اسکا کہنا ہے آج جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے میں نے اپنی ساری زندگی میں نہیں دیکھا اگر ایسے حالات رہے تو میں اپنی فیملی کے ساتھ اسرائیل واپس چلا جاؤنگا ، ہوفمین بھی ایک سیکیورٹی ایجنسی کا چیف ہے اسکا کہنا ہے کہ میری کمپنی کے سیکیورٹی گارڈز جرمن پولیس سے زیادہ تجربہ کار ہیں اور جنگی صلاحیتوں کے ماہر بھی ،ہم جنگ تو جیت سکتے ہیں لیکن اعتماد نہیں۔
گزشتہ ہفتے فرانس اور آسٹریا کی ینگ فٹبال ٹیموں کے درمیان دوستانہ میچ کھیلا گیا دوران میچ ایک شخص گراؤنڈ میں آیا اور ایک یہودی کھلاڑی پر مکوں اور لاتوں کی بارش کر دی ،بعد ازاں پولیس نے اس شخص کو گرفتارکر لیا ۔جرمنی کے شہر پاڈربورن میں ہونے والے دوستانہ میچ کے دوران بھی خدشات ظاہر کئے گئے ہیں کہ یہودی کھلاڑیوں پر حملہ ہو سکتا ہے ،جرمن فٹبال ٹیم کے کوچ کا کہنا ہے ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں لیکن صرف لڑائی جھگڑے تک ہی محدود رہے جبکہ آج کل بات چھری چاقو اور اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو گولی بھی چل سکتی ہے ،اور ایسے ناخوشگوار واقعات پر قابو پانے کیلئے ہم پولیس کی مدد لینے پر مجبور ہیں جو کہ اچھی بات نہیں۔
قارئین ان چند مثالوں اور واقعات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہودیوں نے بالفرض اب تک اگر دس ہزار بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا ہے تو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ وہ چند لوگوں کا خون بہا کر جنگ جیت گئے ہیں ان بے گناہوں کا خون رنگ لائے گا نہیں بلکہ لا رہا ہے آ ج جس حالت میں یہودی مغربی ممالک میں چوہے کی سی زندگی گزار رہے ہیں اور ہر آہٹ پر دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب کوئی مسلم آکر میری منڈی اڑا دے گا تو اسے ہی غیبی طور پر بے گناہوں کا انتقام ،خدا کی بے آواز لاٹھی اور معصوم شہیدوں کا خون رنگ لائے جانے کا ان یہودیوں کو پیغام ہے ، ہم تو مر کر بھی امر رہیں گے اور تم جیتے جی نہ جی سکو گے نہ مر سکو گے۔
یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کہنے کو تو ہم سب مسلمان اور بھائی بھائی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کون سے خطے میں ہم بھائی بھائی ہیں ،کسی دوسرے اسلامی خطے کی بجائے پاکستان پر ایک نظرڈالی جائے تو سگا بھائی بھائی کا دشمن ہے تو فلسطین یا سوڈان کے مسلم کیسے ہمارے بھائی ہو گئے،صرف نعرے مارنے سے کوئی کسی کا رشتہ دار نہیں بنتا پہلے اپنے گھر میں اپنے خون کے ساتھ اپنے ملک میں اپنے ہم وطن کے ساتھ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ بھائی چارے کی بات کی جائے تب جا کر ہزاروں میل دور کسی بھائی کے دکھ درد میں شریک ہوں تو بھائی چارے کی قدر بھی ہو اپنے خون کو خون میں نہلا کر دوسروں کے لئے ہمدردی کے الفاظ کہنا ایک مسلمان کا وطیرہ نہیں ہے۔
کیا ہم اندھے ،بہرے اور اخلاقی طور پر اتنے سن ہو چکے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آتا کسی غیر مسلم کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سب اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ صرف نعرے مارتے ہیں اور عمل ندراد۔