آج کل جمہوریت،جمہوریت کا ہر کوئی راگ الاپ رہا ہے۔کوئی کہتاہے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ۔دوسرا کہتا ہے جمہوریت ہے ہی نہیں تو ڈی ریل کیا ہو گی۔اس دوران ایک ایک تیسری آواز بھی ہے اس کا کہنا ہے کہ ہمارا سارا نظام انتخاب،نظام حکومت ہی بوسیدہ ہو چکا ہے اسے نئے سرے سے نئے حالات کے مطابق بنانا ہو گا کیونکہ اس نظام کے مطابق آئین پر عمل ممکن نہیں ہے ۔ایک بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ سب جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔دنیا میں جہاں مکمل جمہوریت ہے ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اس میں بھی جمہوریت صرف ان ممالک کی اپنی عوام کے لیے ہے دیگر ممالک کے لیے ان کی عوام کے لیے جمہوریت نہیں ہے ۔ اس لیے جسے کامل جمہوریت کہا جاتا ہے وہاں بھی جمہوریت نہیں ہے اس کی ایک مثال ویٹو کرنے کا اختیار بھی ہے جو پانچ جمہوری ممالک کے پاس ہے کیا یہ جمہوریت ہے اس کا فیصلہ کون کرے (جو خود کو جمہوریت کے چیمپین کہتے ہیں ان کا اسرار ہے کہ اسے حقیقی جمہوریت کہا جائے)۔دوسری قسم کی جمہوریت میں کچھ پہلو جمہوری اورکچھ آمرانہ ہوتے ہیں ۔ایسی جمہوریت اکثر ممالک میں رائج ہے اسے ناقص جمہوریت کہتے ہیں ۔اس کے بعد تیسری قسم وہ ہے جس کا ناقص جمہوریت سے بھی نچلا درجہ ہے یہاں الیکشن تو ہوتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں سیاسی آمریت قائم ہو جاتی ہے۔جمہوریت جوکچھ عوام کو دینا چاہتی ہے وہ عوام تک نہیں پہنچتا ۔ ایسی جمہوریت پاکستان میں ہے اور بہت سے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں بھی قائم ہے ۔( پوری دنیا میں جمہوریت کا نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے لیکن اس سے جن کے مٖفادات وابستہ ہیں وہ اسے قائم رکھنا چاہتے ہیں ) پاکستان میں عوام صرف پانچ سال بعد ووٹ کی پرچی ڈالتے ہیں اس کے علاوہ ان کاکوئی کردار نہیں ہوتا نہ ہی ان کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے۔ جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور جمہوریت کاسورج نظر نہیں آتا ہے۔جہاں الیکشن تو ہوتے ہیں لیکن عوام کو جمہوریت نہیں ملتی ۔کیا عوام کوان کے بنیادی حقوق اور جان کا تحفظ ملا؟کیا انھیں روزگارملا؟کیاسوشل سکیورٹی ملی؟ ایسے کلچر اور سہولیات کے مجموعے کا نام جمہوریت ہے جہاں عوام پانی، بجلی، گیس سے محروم ہوں تواسے کوئی جمہوریت نہیں کہتا۔ لیکن ہمارے حکمران اسے جمہوریت ثابت کرنے پر سارا زور لگا رہے ہیں ۔عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری الگ الگ اور مل کر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے ذریعے اصل جمہوریت کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دے رہے ہیں ۔اور اسی جمہوریت کو بچانے کے لیے حکومت بھی اپنا سارا زور لگا رہی ہے ۔یعنی یہ جمہوریت کے نام پر ایک جنگ ہے جو سڑکوں پر ،میڈیا پر،لڑی جارہی ہے میڈیا میں کچھ چینل اور خبارات بھی جمہوریت کی اس جنگ میں دونوں طرف شریک ہیں ۔نتیجہ کیا ہو گا اس کا سب انتظار کر رہے ہیں ۔ کہتے ہیں اصلی جمہوریت عوام کی حکومت،عوام کے لیے ،عوام کے ذریعے ، یعنی عوام کو ضرورت کی ہر شے مل رہی ہو ،مطالبہ نہ کرے،احتجاج نہ کرے ،سڑکوں پر نہ آئے اور روئے نہیں ۔دوسرا یہ کہ عوام کو اپنی زندگی اورمال کاخوف نہ ہو اس کے برعکس پاکستان میں ،کرپشن چل رہی ہے ،رشوت کے بغیر کسی کو نوکری نہیں مل سکتی ،اقربا پروری ،ظلم وفریب ہے ،تویہ ہر گز جمہوریت نہیں ہے۔ انسانی حقوق میں سب سے پہلا(جان کی امان پاوں تو عرض کروں) جان کا تحفظ ہے جو حکومت یہ تحفظ نہیں دے سکتی ہے،وہ کبھی جمہوری نہیں ہو سکتی ہے۔یہی حال پاکستان میں ہے ۔ جمہوریت ایک پورے نظام کانام ہے۔یہاں حقیقی آزادی اظہارِ رائے کا حق میسرنہیں ہے۔یہاں تو برادری ازم ،غنڈہ گردی،دہشت گردی،پولیس،مقدمات،کرپشن، کردارکشی،دھونس،دھاندلی اورجو بھی غیر اخلاقی حربے اور ذرائع میسر ہوں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔حقیقی جمہوریت اسے کہتے ہیں جس میں ہر ووٹر کو اپنے ووٹ کی قیمت معلوم ہو،کہ اُس کا ووٹ ہی ملک میں تبدیلی لائے گا،یہا ں تو ووٹر کویہ شعور ہی نہیں دیا جاتا ہے ۔پاکستان کے انتخابات کی تاریخ گواہ کہ شفاف انتخابات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے انتخابی قوانین موجود ہونے کے باوجودنہ تو کبھی ان پر عمل کیاگیا اور نہ ضروری سمجھاگیااور نہ ہی ان کی پابندی کا لحاظ رکھا گیا۔اس کے نتیجہ یہ نکلا کہ ان انتخابی قوانین اور آئین کی تقاضوں کوپامال کرتے ہوئے جو بھی انتخابات ہوئے اور اس سے اسمبلیاں وجود میں آئیں جن میں اکثر وبیشتر 75 فیصد ایسے لوگ انتخابات جیتے کہ اگر انہیں آئین اور قانون کے معیارات کے مطابق جانچااور عمل کیا جاتا تو اکثریت پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بجائے جیل پہنچ جاتے۔آئین کے آرٹیکل 62,63 اور218(3)کے تحت امیدواروں کے کاغذات کی درست جانچ پڑتال ضروری ہے۔ اس کے واضح ثبوت سامنے آ چکے ہیں اور اپوزیشن اور کئی پارٹیوں کی جانب سے ابھی تک احتجاج جارہی ہے اور یہی احتجاج عوامی سیلاب بن کر اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر انقلاب اور آزادی کا نعرہ لگا کر آبپارہ اور خیابان سہروردی پر خیمے لگا چکے ہیں۔ ہم کو ایسے پاکستان کی ضرورت ہے جہاں مساوات ہو،انصاف ہو، کرپشن سے پاک ماحول ہو،حکومتی امور میں شفافیت ہواور سب کا کڑا احتساب ہو،انتہاء پسندی کی بجاے رواداری اور برداشت کا کلچر فروغ پائے،تمام اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم ہوں تاکہ چشم فلک بانیانِ پاکستان کے خوابوں کی حقیقی تعبیر دیکھے ۔اس کے لیے آج کل انقلاب مارچ اور آزادی مارچ اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن،انقلاب اور تبدیلی والے مل بیٹھیں اور اس کا ملک و قوم کے مفاد میں کوئی فیصلہ کریں ۔