تحریر۔۔۔ وقار بٹ
پاکستان ناگہانی،گھمبیراور ابتر صورتحال سے گزر رہا ہے شاہراہِ دستور پر انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکا ایک دوسرے سے چند قدم دور الگ الگ دھرنا دیے ہوئے ہیں ڈیمانڈز میں سب سے اوُل پر وزیرِاعظم کا استعفیٰ ہے۔چھوٹی بنیادوں پر پی اے ٹی کے دھرنے ملک کے اکثر مضافات میں جاری ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے کراچی اور لاہور میں اپنے بڑے دھرنوں کا آغاز کیا ہے۔ مگر خان صاحب کا اسٹانس بہت برُا اور بے ڈھنگا ہے ریاست کو کرکٹ کا میدان سمجھ بیٹھے ہیں باڈی لینگوج جناب کی اس بات کو وضع کیے ہوئے ہے کہ وہ بے حد غیر سنجیدہ ہیں ۔تحریکِ انصاف کے دھرنے میں بے پردہ بارش میں بھیگی ہوئی جوان لڑکیوں کو ٹھمکے لگاتے دیکھاتو دل رو دیا کہ اگر یہ تبدیلی ہے تو خدا اس طرز کی تبدیلی کبھی رونما نہ ہونے دے جہاں بے حیائی عریانی و اوباشی کو فروغ ملے مغربی اقدار کو غلے لگایا جائے اور اسلامی تعلیمات سے کوسوں دوری اختیار کرلی جائے،سوشل میڈیا پر جب اپنی اس کیفیت کا برملا اظہار کیا تو پی ٹی آئی کے رفقاء نے اعتراضات کی بوچھاڑ کی اور کہا کہ تمہاری تنگ نظری ہے،اب میرا مالک و مولا بہتر جانتا ہے کہ میں کیا فہم رکھتا ہوں۔علامہ طاہر القادری سے اختلافات انتہا کے مگر ان کی ثابت قدمی کا قائل ہوگیا ہوں ان کے مریدین و پیرا کاروں کی وفاداری و فرمانبرداری بھی یقیناًقابلِ دید ہے ۔پاکستان عوامی تحریک کی بہنوں کی باپردگی اس بات کا اندازہ کرواتی ہے کے حقیقی طور پر پاکستان کی بہتری کے لئے کچھ ہو رہا ہے رب کی بارگاہ میں ان خواتین کی عبادت و ریاضت ہے ہی ملک میں اصلاح کے لئے وہ خواہاں ہیں ملک میں انصاف کا نظام رائج کرنے کی۔پی ٹی آئی کی سول نافرمانی تحریک موقع شناسی تھی کہ پریشر حکومت پر پڑے اور نواز شریف کسی طرح مستعفی ہوجائے مگر حکومت ڈھٹائی سے مقابلہ کر رہی اور اقتدار کو چھوڑنے سے گریزاں ہے۔علامہ صاحب نے جب احتجاجی کال دی تھی تو سب کے لبوں پر یہ ہی بات تھی کہ ان کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں اور یہ کینیڈین شہری ہیں جبکہ پی ٹی آئی جمہوری پارٹی ہے گوکہ طاہرالقادری آئین سے شناساں ہیں پنجاب یونیورسٹی میں بہت لیکچر دیتے رہے ہیں بطور محقق دنیا بھر میں ایک رتبہ رکھتے ہیں اور منتقی بات کرتے ہیں ما سوائے کچھ باتوں کہ جو وہ گرم جوشی میں کہہ بیٹھتے ہیں ۔عمران وہ شخص ہیں جن کے کان میں جو بات بھی پڑے وہ اسے بغیر پرکھے کہہ دیا کرتے ہیں جو انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ان کی ذات کے لیے اور اکثر باتیں ان کی اپنے پیر وں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتی ہیں قومی اسمبلی سے تحریک انصاف آخر کار استعفے دے چکی ہے حالات بہت تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں برف پگھل بھی سکتی ہے استعفے بھی واپس لیے جانے کی با وثوق اطلاعات بھی موجود ہیں۔عمران خان نے اکسفورڈ سے ایم اے سیاسیات کیا ہوا ہے تاہم تعلیم سکھاتی تو ہے مگر انسان کے اندرونی رویے اور ذہنیت ہی بتلاتی ہے کہ وہ کوئی کتنا روشن ذہن ہے نواز شریف کو بصیرت استعمال کرنے کے مشیر بہت ہیں مگر کیا کسی نے عمران کی کم سیاسی بصارت کا تذکرہ کرنا بھی گوارہ کیا؟۔امریکہ نے اس سے قبل بھی خفیہ طور پر نواز کویہ باور کرا یا کہ وہ نواز شریف حکومت کے ساتھ ہے اور بلاآخر کھلے لفظوں میں مذاکرات سے معاملات طے کرنے اور نواز شریف کو جائز وزیراعظم کہا بس پھر رچرڈ اولسن کا یہ پیغام دینا تھا کہ کپتان نے سہی جھاڑ پونجھ کی اور امریکہ بہادر کو ملک کے معمالات میں دخل اندازی سے روک دیا جو کہ بہت خوش آئند بات ہے زولفقار بھٹو کہ بعد یہ ہمت کرنے والا عمران ہی ہے مگرعمران خان ابھی بہت خام پیشوا ہیں وہ نئے پاکستان کا ویژن تو رکھتے ہیں مگر انتظامی امور سے بے خبر ہیں۔آئی ایم ایف کا قرضہ نہ دینے والی بات بہت بچکانہ ہے اگر عمران کو حاکمیت ملی بھی تو پاکستان کی ملے گی وہ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ دنیا میں موجود تمام ممالک پر ان کا راج ہوگا؟ ؛وزیرِاعظم کے استعفیٰ دینے سے کونسی ترقی کی راہیں ہموار ہوجانی ہیں۔ انتخابی اصلاحات سب چاہتے ہیں مگر عمران خان صاحب جس نوعیت کی چاہتے ہیں وہ ہمارے ملک میں ممکن نہیں ہیں اور اگر ہیں تو مل بیٹھنے سے ہیں نہ کہ آپ چند لوگوں کی اپنی ریسرچ و بحث سے کیا باقی قوتیں جمہوری نہیں یا صرف آپ نے ٹھپا لگوا رکھا ہے اور لائسنس حاصل کر رکھا ہے ۔طاہر القادری کے مطالبات میں ایک اہم مطالبہ ماڈل ٹاوُن سانحے کی ایف آئی آر درج کروانا اور قاتلوں کوکیفرِکردار تک پہنچانا بھی ہے جس کے حق میں ہر با ضمیر شخص ہے۔میڈیا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہ ہی عوام کی رائے قائم کرتا ہے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہر نیوز چینل کسی نہ کسی کے یا تو پے رول پر ہے یا اپنے مفاد میں عوام کو گمراہ کررہا ہے پاکستان کے میڈیا نے عام لوگوں کو ذہنی مشکلات سے دوچارکردیا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ پانچ کرپٹ صحافی صحافت سے وابستہ تمام لوگوں کے دامن کا داغ ہیں وہ صحافی بھی ہیں جن کی دسترس میں کوئی آسائش نہیں ہے پھر بھی وہ بلاامتیاز کام کرتے ہیں مگر بلیک میلرز ہی ان دا فرنٹ نظر آتے ہیں ۔انقلاب اور چینج کے نعرے سے غریب ذچ ہوگئے ہیں کہ ہمارے نام پر کیاڈرامہ لگا رکھا ہے معیشت کمزور ہو رہی ہے کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں معمولی بزنس مین سمیت اعلیٰ کاروباری حضرات کا کنٹینرز میں اربوں روپے کا مال خسارے کی زد میں آچکا ہے۔ہفتے کی رات کو ایمپائیر کی انگلی اٹھ جائے گی والا بیان دے کر عمران نے پریشان کن ماحول کا مزید اجراء کردیا ہے ، یعنی فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے خدا نخواستہ کہیں فوج نہ چاہتے ہوئے بھی ان بدترین حالات کے پیش نظر مارشل لاء کا نفاذتو نہیں کرنے جارہی اگر کوئی آمر سوچ کے حامی صاحب فوج کے سربراہ ہوتے تو اب تک عسکری قوت آجاتی اور ایسی بھونڈی جمہوریت کا تختہ ا لٹ دیتی۔اور اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار تینوں فریقین ہونگے حکومت کی حماقتیں شاہی رویہ اور خراب فیصلوں نے ہی اکسایا کہ آج عوامی دھرنے جاری ہیں عوام کو قوی یقین دلایا جا چکا ہے کہ سسٹم تبدیل ہوگا کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا اب کیونکر بے معنی مذاکرات کئے جا رہے ہیں اب یوٹرن لینے والی پوزیشن نہ رہی ہے مگر اب شاہ محمود قریشی اہم کردار ادا کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہوگئے ہیں اور الیکشن کی شفاف تحقیقات تک نواز شریف کو کچھ دنوں کے لئے رخصت پر بھیجنے کا مطالبہ سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔ زرداری بھی پاکستان آپہنچے ہیں وزیرِاعظم کے ظہرانے میں بھی شرکت کر چکے ہیں کوششیں تیز ہیں مقتدر حلقوں سے رابطے اعلیٰ سطح پر بڑھا دیے گئے ہیں ڈراپ سین بہت نزدیک ہے اب تو امپورٹڈ گورنر پنجاب حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن بن گئے ہیں اور معاملہ سمیٹنے میں جناب ماہر ہیں اور اب محض مک مکا ہونے کو آپہنچا ہے اب دعا ہے کہ جمہوریت پٹری سے نہ اترے اور اصلاح کر کہ قومی حکومت کو لایا جائے اورعوا م کے مسائل کو اجاگر کیا جائے اور ان کا مثبت حل مرتب کیا جائے ۔