بھارتی فلمی میدان میں ایک سے ایک بڑھ کر اداکار ہ و گلوکارہ ہیں جن کے فلمی کارناموں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے بعض کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات بھی سامنے آتے رہتے ہیں ۔اور وہ عریانی فحاشی کے حوالے سے بہت مشہورہوتے ہیں بھارتی فلمی میدان بڑا وسیع و عریض ہے جہاں ہر نوع کے اداکاروں ،اداکارؤں اور فنکاروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے اور ان کے ہاں ٹیکنیکل اور پروفیشنل انسٹی ٹیوٹشنز موجود ہیں جہاں جدید تعلیم و تربیت کے مواقع موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں کی فلمی دنیا ترقی یافتہ ہے بعض اداروں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے ۔ٹی وی چینلوں نے بھی فلمی دنیا کو اپنی توانائیوں سے سینچا ہے اسی پیاری سی فلمی دنیا میں ہماری پیاری سی دوست جنیوارائے نے جنم لیا ہے اور وہ تھوڑے سے عرصہ میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں انہوںٍ نے آٹھ سال کی عمر میں گانا شروع کیا اور 26 ویں سال میں جا کر ایک مہان نہ صرف گلوکارہ بنی بلکہ اداکارہ کا روپ بھی دھار ا اور آخر کار وہ غزلوں کی ملکہ کہلایءں ۔انکی گائی ہوئی غزلوں نے گائیکی کے میدان میں تہلکہ مچا کے رکھ دیا ہے انہوں نے تھوڑے سے عرصہ میں ساڑھے چار سو کے قریب غزلیں اور گانے گائے ہیں انکی غز لوں میں سے بعض غزلوں نے شا ئقین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے انہوں نے دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں اپنی آواز کے جادو جگائے ہیں اور ان کے پرستاروں میں بلا کا اضافہ ہوا ہے کچھ عرصہ سے وہ پاکستان میں بھی مقبول ہوتی جارہی ہیں یہ وہ اداکارہ و گلوکارہ ہیں جن کا پاکستانی میڈیاء میں کبھی ذ کر تک نہیں ہوا کرتا تھا اب وہ اپنے پاکستانی پرستاروں کے دل میں گونجتی نظر آتی ہیں انہوں نے پنجابی ،بنگالی ،اردو ،سرائیکی اور ہندی میں غزلیں اور گانے گا کر اپنا مقام اونچا بنا لیا ہے میرے جیسے لوگ بھی اب انکی غزلیں اور گانے سن کر محظو ظ ہوئے بغیر نہیں رہتے ہیں مجھے مہدی حسن کی گائی ہوئی غزل (رفتہ رفتہ وہ اپنی ہستی کا سامان ہو گئے )جنیوارائے کی آواز میں سن کر بڑا متاثر ہوا ہوں ۔انہوں نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کے میدان میں بھی اپنا مقام بنایا ہے انکی آخر ی مراحل میں بنتی ہوئی فلم (خوشبو) جو بنگالی زبان میں ہے وہ بڑی سحر انگیز فلم کا روپ دھاررہی ہے ۔اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ کولکتہ میں ہورہی ہے فلم (خوشبو)کی کہانی امراؤ جان سے متاثر نظر آتی ہے اس میں مرکزی کردار دلوں کی دھڑکن تیز کردینے والی اداکارہ جنیوارائے کا ہے جو (خوشبو) نامی طوائف کا رول ادا کرہی ہیں فلم کی پوری کہانی خوشبو کی ارد گرد ہی گھومتی ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اداکارہ وگلو کارہ جنیوا فلم کی ہیروئن بھی ہیں اور کچھ نغمے بھی انھوں نے اس میں گائے ہیں انھوں نے اس میں ایک بہت اچھی غزل گائی ہے فلم کے ہیرو پیوش چوپڑا ڈائریکٹر نہال دتہ اور میوزک ڈائریکٹر استاد کے بوس ہیں ۔جنیوا کے علاوہ راشد خان اور نرملو نے بھی اس فلم میں اپنی گلوکاری کے جوھر دکھائے ہیں فلم میں ذرینہ وہاب ،مسعود اختر ،لبونی سرکار ،شکھا رائے اور کوشک دکھانے کے علاوہ قومی یکجہتی کا پیغام بھی دیا گیا ہے فلم کی کہانی اس طرح آگے بڑھتی ہے کہ کولکتہ کی رہنے والی ہندو لڑکی کو اس کی پڑوسن لکھئنو کی ایک طوائف کے ہاتھوں فروخت کردیتی ہے لڑکی طوائف کے کوٹھے پر رہنے لگتی ہے اور اس کا نام خوشبو رکھا جاتا ہے عاطف نامی ایک لڑکا بحرین میں بہت بڑابزنس مین ہے وہ بحرین سے ہندوستان آتا ہے تو ایک شو میں شرکت کرتا ہے پروگرام میں خوشبو کو غزل گاتے ہوئے دیکھ کر اس پر فدا ہو جاتا ہے وہ خوشبو کی زلفوں کا ایسا اسیر ہوتا ہے کہ اس کو پانے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے وہ اس کے دام محبت میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کئی بار مجرے کے وقت اس سے ملنے جاتا ہے چوں کہ خوشبو سے عاطف سچا پیار کرتا ہے اس لئے طوائف ہونے کے باوجوداس سے شادی کرلیتا ہے فلم کی اداکارہ جنیوارائے کو اس فلم سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں انھوں نے کہا میں نے اور تمام فنکاروں نے اس فلم میں بڑی محنت کی ہے اور امید ہے کہ ناظرین کو پسند آئے گی ۔انھوں نے بتایا کہ اس میں غزل کے شائقین کیلئے بھی بہت کچھ ہے جنیوا کو اس فلم کی نمائش کا بڑی بے صبری سے انتظار ہے