تحریر۔۔۔محمد خرم شہزاد بھٹی
آج کل تو پوری پاکستانی قوم کی نگاہیں عمران خان صاحب کے دھرنے اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے انقلاب کی طرف ہی لگی ہوئی ہیں ملکی معیشت کو روزانہ عربو ں روپو ں کا نقصان ہو رہا ہے عام لو گو ں کا طرز زندگی بری طرح متا ثر ہو رہا ہے اور کاروبار زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو چکے ہیں واقعی میں چند لوگوں نے قوم کی لے لی ہے یہاں پر قسمت اپنے ہاتھ میں اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں تاریخ رقم ہورہی ہے۔ یہ تاریخ اِس لحاظ سے منفرد ہے کہ’’کپتان جی’وہاں بنیاد تو نئے پاکستان کی رکھ رہے ہیں لیکن سماں پکنک کاسا۔ مردوزَن ہی نہیں رہنماء بھی محوِر قص۔ دھرتی جھوم رہی ہے اور غصے سے دشمنوں کے سرگھوم رہے ہیں ہمیں اگر پتہ ہوتا کہ اسلام آباد میں’پھینٹی’’کا کوئی امکان نہیں تو ہم بھی اِس’’میوزیکل کنسرٹ’’سے لطف اندوز ہوآتے لیکن ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ نون لیگ کے گلو بٹ اور پومی بٹ’ پھینٹی کے ماہرہیں یہ تو اب پتہ چلاکہ ریڈ زون میں مفت میں پکنک کے مزے ہیں۔ ہم نے تو یہی سنا تھاکہ دھرنے کا مطلب کسی ایک جگہ ٹِک کر بیٹھے رہنا ہوتا ہے جو ہمیں منظور نہیں تھا لیکن کیا پتہ تھا کہ’’ماڈرن دھرنوں’’میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ یہاں تو رات آٹھ بجے کے بعد گانے کی محفل گرم ہوتی ہے اور دو بجے اپنے عروج پر ہوتی ہے ۔ پھر سبھی’’اسلام آبادیے’’اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں لیکن NGO’s کی آزادی نسواں کی علمبردار خواتین کی تو باچھیں کھلی جارہی ہیں کیونکہ جووہ عشروں میں نہ کر پائیں، کپتان صاحب نے دنوں میں کر دکھایا۔ نواز لیگیئے کہتے ہیں کہ خاں صاحب نے دھرنے میں شرکاء کی تعداد سے مایوس ہو کر میوزیکل کنسرٹ کا سہارا لیا ہے۔اور یہ جو خاں صاحب ہر وقت اکھڑے اکھڑے سے نظرآتے ہیں، اْس کی وجہ بھی یہی کہ خاں صاحب نے نعرہ لگایا دَس لاکھ کا اور آئے چند ہزاروں میں البتہ اب خاں صاحب کو’’کسی’’کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہے جبکہ وہاں کے عالم سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہاتھ ہی سو گیا ہے ریڈ زون میں ماں باپ سے دورہمارے ’’نازک اندام ’سونامیے اْداس ہوجائیں اور ریڈ زون کی سڑک پر بیٹھ کر رونا شروع کردیں لیکن وہ اِن لیگیوں کی فطرت سے خوب واقف ہیں اِسی لیے انہوں نے اپنے معصوم سونامیوں کے جی بہلانے کا پورا پورا بندوبست کر رکھا تھا۔اب بھی اپنے دھرنے کا’’میوزیکل کنسرٹ’’ختم ہونے سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ اگلے دن کون کون سے گلوکار آئیں گے تاکہ دلچسپی برقرار رہے۔ اب تو کپتان جی اپنے نئے بننے والے پاکستان میں اپنی دوبارہ شادی کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے مگر اگر کپتان کا نیا پاکستان نہ بنا تو کیا وہ قائد اعظم کے بنا ئے ہوئے پاکستان میں اپنی شادی نہیں کریں گے ویسے منہ کا سواد بدلنے کے لیے لال حویلی والے شیخ رشید بھی ہیں جو گا ہے بگاہے سٹیج پرایسے ہی نمودار ہوتے ہیں جیسے ٹی وی ڈراموں کے وقفوں کے دوران اشتہارات ویسے توہم شیخ الاسلام کے انقلاب مارچ کے بھی اْتنے ہی حامی ہیں جتنے کپتان کے آزادی مارچ کے۔ لیکن تعداد میں آزادی مارچ سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود مولانا کا انقلاب مارچ ’’روکھا پھیکا’’ساہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب رات آٹھ بجے کے بعد میوزیکل کنسرٹ شروع ہوتا ہے تو مولانا کے انقلابیئے بھی کھسک کر سونامیوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور’’ میلہ’’بھر جاتا ہے۔ مولانانے پہلے تو دو تین دن صبر کیا لیکن پھر انہوں نے حالات کو بھانپتے ہوئے نہ صرف جنگی ترانوں اور قوالیوں کی اجازت دے دی بلکہ فرمائش کرکے جنگی ترانہ’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا’’سْنا اور اِس پر جھومتے بھی رہے۔ مولانا کو جھومتے دیکھ کر عقیدت مند بھی دھمال ڈالنے لگے۔ اب وہاں قوالیوں اور ترانوں پر دھمال تو ڈالی جاتی ہے لیکن وہ مزہ کہاں جو میوزیکل کنسرٹ میں ہوتا ہے۔ ہے