کمرے میں موجود مسہری پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا بیمار اور کمزور،اس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھرآئی تھیں اور گال اندر کی طرف دھنس گئے تھے۔ اس کا کھلتا ہوا رنگ بیماری کی وجہ سے اور نکھر گیا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور ان میں سفید،چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ چہرے پہ جھریاں تھیں مگر یہ جھریاں کسی شاعر یا فلسفی کی طرح اس کے گہرے مطالعے اور غورو فکر کی باریکیوں کو نمایاں کر رہی تھیں۔ ان سب کے باوجود اس کا چہرہ باوقار اور پر جلال تھا۔ آنکھوں میں بلا کی چمک تھی اور ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ نرس نے تھرما میٹر سے ٹمپریچر نوٹ کیا تو اس شخص کی گونجتی ہوئی آواز نے کمرے کے سکوت کو درہم برہم کردیا۔ میرا ٹمپریچر کتنا ہے؟ اس نے پوچھا۔ سر! یہ میں صرف داکٹر کو بتا سکتی ہوں۔ نرس نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ مگر میں اپنا ٹمپریچر معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مریض نے اصرار کیا۔ نرس ایک لمحے کو ہچکچائی کیونکہ یہ اصرار کسی معمولی آدمی کا اصرار نہیں تھا۔ یہ ملک کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا آدمی تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ سوری سر یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتی۔ اس نے کہا اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ کمرے میں مریض کی بہن بھی موجود تھی۔ وہ مسکرایا اور اپنی بہن کی طرف رخ کر کے بولا۔ میں اس قسم کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں لوگ جو مصمم ارادے کے مالک ہوں اور جو خوف زدہ ہونے سے صاف انکار کردیں۔ بستر مرض پر لیٹے ہوئے یہ مریض بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور پہلو اصولوں کی پاسداری میں گزرا۔ یہ بستر مرض بعد میں بستر مرگ ثابت ہوا لیکن اس حالت میں بھی وہ اصولوں کو دیوانہ وار چاہتے تھے اور جہاں اصولوں کی پاسداری دیکھتے اسے سراہتے تھے۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ پر اپنی قوم کے نام پیغام میں انہوں کہا تھا ۔یاد رکھئے پاکستا ن کا قیام ایک ا یسی حقیقت ہے جس کی دنیا کی تا ریخ میں مشال قا ئم کر نے میں قا ئد اعظم نے کسی چیز کی پروا نہیں کی ۔نہ ا پنے آرام کی نہ غذا کی نہ دواکی نہ صحت کی۔بس ایک مقصد تھااور اس مقصد کی خا طر انہوں نے دن رات ایک کیا ہوا تھا اور جب یہ مقصد پورا ہو گیا تو بالا شبہ وہ بہت تھک چکے تھے ۔ ان کے قو ی مضحمل ہو چکے تھے ۔کمزوری نے انہیں ہڈیوں کا ایک پنجربنا دیا تھا جس میں ایک بے تاب دل کچھ کرنے کے لئے مسلسل بے چین رہتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کو زندگی کی مہلت بہت کم ملی تھی۔ صرف ایک سال اور چھبیس دن۔ یہ مختصر عرصہ بھی ایسا جس میں بیماری اور کمزوری اپنے عروج پر تھی۔ لیکن یہ بات بڑی عبرت انگیز ہے کہ اس ملک کے بڑے سے بڑے لیڈر نے زیادہ سے زیادہ عرصے میں بھی اس کے لئے اتنا کام نہیں کیا جتنا قائد اعظم نے اتنی مختصر سی مہلت میں کیا۔ نئی مملکت کے نئے نئے مسائل تھے اور سب سنگین۔ نئی مملکت کی داخلہ اور خارجہ ہالیسیاں درپیش مسائل کی نشان دہی اس کے حل کے لئے انتھک کام مہاجرین کی رہائش و خوراک ک منصوبہ بندی ان میں وطن سے وابستگی کے جذبہ کا فروغ اقلیتوں کی حفاظت صوبوں کا دورہ صوبوں میں وطنیت کا احساس مسئلہ کشمیر سیاستدانوں سے ملاقاتیں اجلاسوں کی صدارت انتظامیہ کا موئثر نظام، افواج کی تنظیم نو غرض کہ کاموں کی ایک طویل قطار تھی جن کا سامنا قائد کو کرنا پڑ رہا تھا اور اپنی ساری ناتوانیوں کے باوجود ان کاموں کا نپٹانے کے لئے وہ\” جن\” بنے ہوئے تھے۔ ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح اہنے بھائی کو پیار سے\” جن \”ہی کہا کرتی تھیں ۔ یہ غالباً جناح کا مخفف رہا ہو گا۔ قائد کے آخری دنوں میں ان کے ڈاکٹر ان کے مخلص آرام کے لئے بار بار اصرار کرتے رہے لیکن یہ اصرار وہ ہمیشہ مسکرا کر ٹال دیتے تھے یا ایسا جواب دیتے تھے کہ مقابل کے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا۔ کیا تم نے کبھی سنا ہے کسی جنرل نے چھٹی کی ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو۔ ایک اور مرحلے پر انہوں نے کہا۔ میں اپنی جسمانی طاقت کی کان کھود کر توانائی کا آخری اونس تک ڈھونڈ نکالوں گااور اسے اپنی قوم کی خدمت میں صرف کر دوں گا۔ اپنی توانائی اور تنگی وقت کا احساس خود قائد اعظم کو بھی تھا۔ وہ عمر عزیز کے 71 سال گزار چکے تھے اور وہ بھی مسلسل جدوجہد میں۔30 اکتوبر1947۱ء کی یونیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے پہلی بار موت کا تذکرہ کیا لیکن اس تذکرے میں بھی ایک آن بان تھی ایک وقار تھا۔ انہوں نے کہا اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنا حوصلہ بر قرار رکھئے ۔موت سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کی وقار کے تحفظ کی خاطر موت کو جرات کے ساتھ گلے لگانا چاہیے ہمیں اپنا فرض ادا کرتے رہنا چاہیے اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے ۔روئے زمین پرکوئی ایسی طاقت نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے یہ ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ 19مارچ 1948ء کو اسی ناتوانی و کمزوری کے عالم میںآپ نے مشرقی پاکستان کا تاریخ ساز دورہ کیا جہاں ہندو بنگالی زبان کو مسئلہ بنا کر تعصب کی آگ کو ہوا دے رہے تھے۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کی پروا کئے بغیر وہ ایک ماہ تک مختلف علاقوں کا دورہ کر کے پاکستانیت کو فروغ دیتے رہے۔ مئی کے آخر میں ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور کام کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے قائد اعظم کو کوئٹہ چلے جانا چاہیے کوئٹہ میں آب و ہوا تو تبدیل ہو گئی مگر ان کی مصروفیتوں میں کوئی فرق نہ پڑا۔ تقریبیں تھیں۔ تقریریں تھیں اور پاکستان کا مضبوط مستقبل ان کا موضوع تھا۔ یکم جولائی کو کراچی میں اسٹیٹ بینک کا انہیں افتتاح کرنا تھا۔ ڈاکٹروں نے انہیں سفر اور تقریر سے منع کیا مگر قائد اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ہماری اقتصادی اور معاشی خوش حالی کا سوال ہے میں ضرور جاؤں گا انہوں نے پروگرام کے مطابق اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تقریر بھی کی مگر اس عالم میں کہ ان کی آواز بمشکل نکل رہی تھی اور وہ رک رک کر کھانس کر تقریر کر رہے تھے۔7جولائی کو انہیں پھر کوئٹہ لے جایا گیا۔21 جولائی کو طبعیت سنبھلتی نہ دیکھ کر لاہور کے نامور فزیشن ڈاکٹر کرنل الہی بخش کو کوئٹہ بلوا لیا گیا۔ معائنہ کے بعد معلوم ہوا کہ قائد کے پھیپھڑوں میں انفکشن ہے اور انہیں ٹی ۔بی ہو چکی ہے۔ مکمل آرام ان کی صحت کا تقاضا تھا مگر یہ تقاضا انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔ اسی عالم میں پاکستان کی پہلی سالگرہ آئی اور انہوں نے قوم کے نام پیغام خود تیار کر کے جاری کیا۔ 27 اگست کو عیدالفطر تھی۔ اس موقعہ پر ان کا پیغام ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی۔ قائد اعظم کے آخری ریکارڈ شدہ الفاظ تھے۔۔صرف مشترکہ کوششوں اور مقدر پر یقین کے ساتھ ہی ہم اپنے خوابوں کے پاکستان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔۔ میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی کو دیانت داری خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے ۔یکم ستمبر کو ان پر بیماری کا حملہ ہوا اور 5 ستمبر کی شام کو انہیں نمونیہ ہوگیا۔ دس ستمبر کو ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے محترمہ فاطمہ جناح کو یہ دہشت ناک اطلاع دی کہ قائداعظم اب چند دنوں کے مہمان ہیں۔ ۱۱ ستمبر 1948 کو انہیں کراچی لایا گیا۔ رات کے تقریباً ساڑھے نو بجے ان کی طبیعت اچانک شدید بگڑ گئی۔ چوٹی کے ڈاکٹر اپنی بھر پور کوشش کرتے رہے لیکن دس بج کر پچیس منٹ پر وہ دل ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔ جس میں قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ با بائے قوم چل بسے اور مسائل میں گھری ہوئی قوم یتیم ہو گئی۔ یہ خبر پوری ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ روتے ہوئے لوگوں اور اور بین کرتی ہوئی عورتوں کا ایک سیلاب تھا۔ جو گورنر ہاؤس کی طرف امڈ رہا تھا جہاں ان کے قائد کا جسد خاکی دیدار کے لئے موجود تھا۔ اسی رات بولٹن مارکیٹ کراچی کے قریب ایک ہجوم کو ایک غم زدہ شخص نے آکر یہ اطلاع دی کہ قائد اعظم کا انتقال ہو گیا لوگ جیسے سکتے میں رہ گے۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے مزید تفصیل پوچھتے ایک شخص نے آگے بڑھ کر اجنبی کے چہرے پر زور دار طمانچہ رسید کیا اور کہا کیاکہتا ہے؟ لمحہ بھر کو وہ اجنبی حیران رہ گیا پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے طمانچہ مارنے والے کی جانب اپنا دوسرا گال بڑھاتے ہوئے کہا۔ بھائی اس پر بھی طمانچہ مارلو اور مجھے یقین دلا دو کہ قائد اعظم زندہ ہیں۔