چھ مئی دو ہزار دس۔مہینوں دل کی بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد نائیجیریاکا صدر اُمارویار اَدوعا چل بسااور جوناتھن گڈلک نے سرکاری فرائض کی ذمہ داری سنبھالی۔
اٹھارہ اپریل دوہزار گیارہ۔تاریخ کے بہترین انتخابات کی امید قائم ہوئی اور اس سے پہلے کہ جوناتھن گڈ لک کو صدر قرار دیا جاتا مخالف پارٹی کے مسلمانوں نے عیسائیوں پر دھاوا بول دیا۔
بیس اپریل دوہزار گیارہ۔بد امنی کے سبب درجنوں افراد پر تشدد واقعات میں ہلاک ہوئے،سر کاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، سڑکوں پر جلی کٹی لاشوں کا انبار لگ گیا،ہزاروں افراد ریاست کے دیگر شہروں کی طرف فرار ہوئے اور صدارتی انتخابات کے بعد نائیجیریا کی صورت حال کنٹرول سے باہر ہو گئی،حکومت نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پر تشدد جھڑپیں کئی ہفتے جاری رہنے کا اعلان کیا ۔
چوبیس اپریل دو ہزار گیارہ ۔انسانی حقوق کے ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا کہ پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ملکی صورت حال مزید ابتر ہو گئی ہے۔
پندرہ جولائی دو ہزار گیارہ ۔بر اعظم افریقہ میں شدید بے چینی ۔جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے تین دنوں میں تین افریقی ممالک کا دورہ کیا ۔
اکتیس دسمبر دوہزار گیارہ۔لگاتار حملوں کے بعد جوناتھن گڈ لک نے ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا چار صوبوں میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی اور سرحدیں بند کر دیں گئیں،صدر نے عیسائیوں پر مذہبی طرز کے حملوں کا شدید رد عمل ظاہر کیااور ایک نئے انسداد دہشت گردی یونٹ کو بنیاد پرست اسلامی فرقے کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
سولہ جنوری دو ہزار بارہ۔دوران احتجاج اور ہڑتال خونی جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جوناتھن گڈ لک اپنی قوم کے احتجاج سے شدید ناراض ہوئے اور بڑی تیزی سے پیٹرول کی قیمت میں کمی کر دی۔
پانچ مئی دو ہزار چودہ۔بوکو حرام دہشت گرد تنظیم نے تین سو سے زائد طالب علم لڑکیوں کو اغوا کر لیا،حکومت نے ایک احتجاجی رہنما کو گرفتار کیا جس پر جوناتھن کی اہلیہ نے الزام لگایا کہ وہ صدر کی ساکھ ومقبولیت کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
سولہ مئی دوہزار چودہ۔دو ہفتوں سے تین سو لڑکیاں دہشت گرد تنظم بوکو حرام کی قید میں،چی بوک میں بوکو حرام کا اڈا ہے اور صدر جوناتھن نے مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
انتیس مئی دوہزار چودہ۔جوناتھن گڈ لک کی بوکو حرام کو کھلی جنگ کی دھمکی ،اس نے اعلان کیا کہ میں اپنی بیٹیوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کروں گا لیکن اسے جنگ میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
یکم جون دوہزار چودہ۔نائیجیریا کے جنوب مشرقی شہر موبی میں بومب بلاسٹ سے کم از کم ساٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
دو جون دو ہزار چودہ۔بوکو حرام نے نائیجریا کو خون میں نہلا دیا مختلف علاقوں میں دھماکے ہوئے اور سو سے زائد افراد جان سے گئے ۔
تین جون دو ہزار چودہ ۔نائیجرین پولیس نے مغوی لڑکیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرنے پر پابندی عائد کر دی کیونکہ مظاہرین پر حملوں کا خدشہ ہے۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل رپورٹ۔نائیجیریا میں ظلم ،بربریت اور اذیت کی انتہا،الیکٹرک شاک ،عصمت دری ،ہاتھ و پاؤں کے ناخن اور دانتوں کو اکھاڑنے کے واقعات۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ قیدیوں کو منظم طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
نائیجیریا کا دارالحکومت ابوجا۔جہنم میں خوش آمدید۔انسانی حقوق کے ادارے نے چونسٹھ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کی اور بتایا کہ مقامی پولیس ،فوجی اور دیگر سر کاری و غیر سرکاری سیکیورٹی ادارے باقاعدگی اور منظم طریقوں سے قیدیوں پر ظلم کی انتہا کرتے ہیں قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا پولیس کا مشغلہ بن گیا ہے بہت سے پولیس سٹیشن غیر سرکاری طور پر تشدد چیمبرز بن چکے ہیں،ادارے کی رپورٹ کے مطابق ابوجا اور گردو نواح کے ان پانچ سو افراد سے انٹر ویو ز لئے گئے جو تشدد سہنے کے بعد بچ گئے علاوہ ازیں ادارے نے گزشتہ دس برسوں سے ملکی صورت حال کے شواہد اور مکمل ثبوت کے ساتھ تمام میٹیریل جمع کیا ہے جس میں سیکیورٹی اداروں کے کارنامے درج ہیں کہ انہوں نے قیدیوں کے ساتھ کیسا ناروا سلوک کیا کون سی نئی تشدد آمیز تیکنیک استعمال کی مثلاً جنسی استحصال ،مارپیٹ،الیکٹرک شاک، ہاتھ پاؤں کے ناخن اکھاڑنا اور دانتوں کو توڑنا وغیرہ کے علاوہ دنیا کی رسائی سے محروم رکھنا شامل ہیں،انسانی حقوق کے ادارے نے مزید ہولناک واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چند افراد کی زبانی تشدد کے واقعات سننے کے بعد انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
چوبیس سالہ لڑکی نے بتایا کہ پولیس سٹیشن میں سیکیورٹی اہلکاروں نے برہنہ کرکے اپنی غلاظت مجھ پر پھینکی بعد ازاں آنسو گیس چھوڑ دی اور الزام لگایا کہ میں مبینہ بینک ڈکیتی ملوث ہوں۔پندرہ سالہ محمود جو یوب کا شہری ہے دیگر پچاس مشتبہ بچوں جن کی عمریں تیرہ سے انیس سال ہیں گرفتار کئے گئے محمود کا کہنا ہے تین ہفتے فوجیوں نے ہمیں حراست میں رکھا رائفل کے بٹ مارتے رہے برہنہ کرکے ہماری پیٹھ پر پگھلا پلاسٹک رکھا جاتا ٹوٹے شیشوں کی کرچیاں ہاتھوں سے جمع کرتے اور دھمکی دی جاتی کہ کہا نہ مانا تو ماورائے عدالت سزائے موت دی جائے گی۔ایک دوسرے نائیجیرین نے بتایا کہ نو افراد کو تیزاب سے بھیگی تاروں سے باندھ کر ایک تنگ مورچے میں پھینک دیا کئی بار ہمارے اوپر ٹھنڈا پانی یا گرم پلاسٹک گرایا گیا۔ایک بارہ سالہ لڑکے نے بتایا کہ اسے یوب سے گرفتار کیا گیا بے رحم فوجیوں نے لاتوں اور گھونسوں سے اتنا پیٹا کہ جلد پھٹ گئی زخموں پر شراب انڈیلی جاتی ان کی تھوکیں اور الٹیاں مجھے اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے کو کہا جاتا۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ کے مطابق پر تششدد واقعات صرف ان قیدیوں کے ساتھ پیش نہیں آئے جو بوکو حرام کی حراست یا گردو نواح میں تھے بلکہ شمال مشرق میں واقع فوجی تنصیبات میں قید افراد کو بھی فوجیوں نے شدید ٹارچر کیا ،انہیں بھوکا رکھا جاتا بیماری یا زخموں کا علاج نہیں کیا جاتا اور کئی لوگ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر جاتے۔
شمالی نائیجیریا میں بوکو حرام کے انتہا پسند اسلامی ریاست کے قیام کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں بوکو حرام نے کئی سالوں سے دہشت گردی پھیلا رکھی ہے،لڑکیوں کا اغوا ،دیہاتوں پر حملے ،کار بومب بلاسٹ اور قتل وغارت گری وغیرہ،دوہزار ایک سے اب تک دس ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے،تین لاکھ سے زائد افراد جائے پناہ کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں،ایمنیسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کا رد عمل تباہ کن ہے،انسانی حقوق کے ادارے نے نائیجیرین آرمی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے انہوں نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ ریاست کی غیر یقینی صورت حال کو بہتر بنانے کے فوری اقدامات کئے جائیں اور تشدد کے واقعات میں ملوث پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو سخت سزائیں دی جائیں،تشدد کو جرم میں شمار کیا جائے اور ٹھوس قوانین بنائے جائیں،تشدد کے واقعات میں مرنے والوں کے لواحقین کو معقول معاوضہ دیا جائے اور معذور افراد کا مکمل علاج کیا جائے۔
چند اسلامی ممالک کے علاوہ پر تشدد واقعات میں ملوث افراد کو سزائیں دینا کسی دوسرے اسلامی ملک میں نہیں ہے،اسی لئے لوگ بے خوفی سے انسانوں پر تشدد کرتے ہیں کہ قانون تو ہے نہیں ڈرنا کس بات کا ،جبکہ مغربی اور مہذب ممالک میں کسی انسان کو تھپڑ مارنا تو درکنار بداخلاقی سے پیش آنے پر بھی جرمانہ کیا جاتا ہے اور چند اسلامی ممالک میں دن دیہاڑے لوگ قتل کر دئے جاتے ہیں اور قانون بند آنکھ سے تماشا دیکھتا ہے۔قانون اندھا ہے یا نہیں اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے یا نہیں لیکن ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی ہے ہم ظلم کو دیکھتے ہیں سہتے ہیں لیکن ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ،ظلم کرنے والا تو گناہ گار ہے ہی لیکن ظلم سہنے والا بھی اتنا ہی گناہ گار ہے،اور ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانے والا سب سے بڑا گناہ گار ہے۔