جنابِ آصف زرداری کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ تھوڑے’’مخولیے‘‘ہیں۔اُنہوں نے ازراہِ تفنن یہ کہہ دیا’’میاں صاحب! وزیرِاعظم بنیں،بادشاہ نہ بنیں‘‘محترم آصف زرداری کایہ ’’مخول‘‘ دھرنے والوں کوایسابھایاکہ’’بڑے اورچھوٹے بھائی‘‘نے میاں صاحب کوکہناہی ’’بادشاہ‘‘شروع کردیا۔ اب توہمارے مُنہ سے بھی کبھی کبھی وزیرِاعظم کی بجائے بادشاہ نکل جاتاہے۔میاں صاحب کوبادشاہ کہنے کی توجیح یہ کہ وہ اقتدارکی ساری’’ریوڑیاں‘‘اپنوں میں ہی بانٹ دیتے ہیں۔بات توسچ ہے مگربادشاہت کے جرثومے توخاں صاحب اور علامہ صاحب میں بھی کلبلاتے رہتے ہیں۔علامہ صاحب نے منہاج القرآن کاجوبورڈآف گورنربنایاہے اُس کے چیئرمین وہ خودہیں، سینئروائس چیئرمین اُن کے بیٹے حسن محی الدین،وائس چیئرمین حسین محی الدین،بیوی،بہو،اوردوبیٹیاں بورڈآف گورنرزکی اراکین ہیں اوریوں کُل 13 اراکین میں سے سات علامہ صاحب کے فیملی ممبرز ہیں۔چونکہ چارممبرزپرمشتمل افرادکی موجودگی میں میٹنگ طلب کی جاسکتی ہے اِس لیے علامہ اپنے گھر(کینیڈا)میں ہی میٹنگزطلب کرکے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔پُرلطف بات یہ ہے کہ اگربورڈکے تمام (12)اراکین کسی معاملے میں مولاناسے اختلاف کریں تومولاناکے پاس’’ویٹو‘‘پاورہے اوروہ اکیلے ہی کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔یہی حال شوکت خانم کے بورڈآف گورنرکاہے۔وہاں بھی غالب اکثریت خاں صاحب کے قریبی عزیزوں پرمشتمل ہے اورخاں صاحب خودچیئرمین۔ویسے بھی بادشاہت توسوائے جماعت اسلامی کے تقریباََہرسیاسی جماعت میں پائی جاتی ہے۔جنابِ الطاف حسین ایم کیوایم کے تاحیات قائد،پیپلزپارٹی بھٹوخاندان کی وراثت،مونس الٰہی چودھری برادران کاسیاسی وارث اورچودھری شجاعت حسین قاف لیگ کے صدر۔اے این پی کے قائد باچاخاں پھراُن کے بیٹے خاں عبدالولی خاں اوراب پوتے اسفندیارولی خاں۔جمیعت علمائے اسلام(ف)بھی مولانافضل الرحمٰن اوراُن کے بھائیوں کاطواف ہی کرتی رہتی ہے اِس لیے محض نوازلیگ پر’’بادشاہت‘‘کاالزام دھرنادرست نہیں۔
علامہ صاحب فرماتے ہیں’’ہم35دنوں سے استقامت کاپہاڑبنے بیٹھے ہیں‘‘۔بجاارشادلیکن آپ کوتو’’بشارت‘‘ہوئی تھی کہ جب آپ باہرنکلیں گے تو2 گھنٹوں میں انقلاب آجائے گالیکن انقلاب تو ایک ہزارگھنٹوں میں بھی نہیںآیا۔کہیں بشارت اُلٹ تونہیں ہوگئی؟۔یہ بجاکہ عقیدت منداستقامت کاپہاڑبنے بیٹھے ہیں لیکن کچھ لوگ تویہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کی’’ڈنڈابردار‘‘فورس نے عورتوں اوربچوں کویرغمال بنارکھاہے۔۔۔۔علامہ صاحب نے فرمایا’’پاکستان میں انسان،حیوانوں سے بھی بَدتَرزندگی گزاررہے ہیں‘‘۔ظاہرہے کہ جب’’مُرشد‘‘کروڑوں کی لاگت سے تیارکردہ پُرتعیش کنٹینرمیں ہوں اورعقیدت مندسڑکوں پر’’رُل‘‘رہے ہوں توزندگی حیوان سے بدترہی ہوگی۔علامہ کااعلان توخلفائے راشدین کادَورلوٹانے کاہے اورمثالیں بھی وہ عالمِ اسلام کی ہی دیتے ہیں لیکن عقیدت مندوں کے ساتھ سڑک پرسوناتودرکنار،وہ تودِن میں ایک دوبارکنٹینرسے باہرآکراپنادیدارکرواتے اورپھرواپس کنٹینرمیں چلے جاتے ہیں۔جب ایک عالمِ دین اوراسلامی نظام کے داعی کے قول وفعل میں اتناتضادہوتوپھرپیروکاروں کی زندگی حیوانوں سے بدترنہیں ہوگی تواورکیاہوگی۔۔۔۔علامہ صاحب نے فرمایا’’وزیرِاعظم نے استعفیٰ نہ دیا تواُٹھاکرکچرے میں پھینک دیں گے‘‘۔دراصل علامہ صاحب کسی کاادھاررکھنے کے قائل نہیں۔ایک بارمیاں نوازشریف صاحب علامہ صاحب کواپنے کندھوں پربٹھاکر’’غارِحرا‘‘تک لے کرگئے تھے۔علامہ صاحب وہی احسان اتارنے کے لیے میاں صاحب کواٹھاکر’’کچرے‘‘میں پھینکناچاہتے ہیں۔ علامہ صاحب تودُبلے پتلے تھے اِس لیے میاں صاحب اُنہیں کندھوں پربٹھاکرغارِحراتک لے گئے لیکن میاں صاحب توما شاء اللہ بھاری بھرکم ہیں،’’منحنی‘‘سے علامہ صاحب اُنہیں کیسے اُٹھاپائیں گے؟۔ویسے بھی میاں صاحب نے ’’حفظِ ماتقدم‘‘کے طور پرپوری پارلیمنٹ کابوجھ بھی اپنی جیبوں میں ڈال رکھاہے اِس لیے اگرعلامہ صاحب کوایسی کوئی’’بشارت‘‘ہوئی ہے تواُس کے بھی اُلٹ ہونے کااندیشہ ہے۔
محترم عمران خاں کہتے ہیں’’بقرعیدکی تیاری کرلی ہے،میرابکرایہیں ذبح ہوگا۔ایک سال بھی بیٹھناپڑاتو بیٹھیں گے‘‘۔نوازلیگئے کہتے ہیں کہ اگرخاں صاحب دھرناایک کی بجائے چارسال تک لے جائیں تووہ وعدہ کرتے ہیں کہ چارسال بعد وزیرِاعظم کے استعفے سمیت خاں صاحب کے تمام مطالبات بناکسی حیل وحجت کے تسلیم کر لیں گے۔ویسے بھی دھرنوں کی وجہ سے پوری قوم میں’’خونِ گرم‘‘کی لہریں موجزن ہیں،ڈی چوک میں اچھّا بھلابازاربھی کھل گیاہے ،لنڈے کے کپڑے بھی بکنے لگے ہیں،بہت سے لوگوں کی روزی روٹی بھی لگ گئی ہے ،الیکٹرانک میڈیا کا شغل بھی لگاہواہے اورسب سے بڑھ کرہمیں بھی اپنے کالموں کے لیے دھڑادھڑموادمل رہاہے۔ہم توابھی سے یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہورہے ہیں کہ اگر’’مُک مکا‘‘ہوگیاتوپھرہماراکیابنے گااورہم اپنے کالموں کے لیے موادکہاں سے لائیں گے۔اِس لیے ہماری بھی علامہ صاحب اورخاں صاحب سے پُرزوراپیل ہے کہ وہ کم ازکم چارسال توبیٹھیں۔۔۔۔رہی قربانی کی بات تولیگیوں کاخیال ہے کہ اگربکرے کی جگہ شیخ رشید کی قربانی دے دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اِس سلسلے میں علامہ قادری فوراََآٹھ سوصفحات کافتویٰ بھی جاری کردیں گے کیونکہ وہ توپہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انقلاب کے لیے اگرچارپانچ ہزارلوگوں کی قربانی دینی پڑے توکوئی ہرج نہیں۔اُنہوں نے تو’’کَفن ڈرامے‘‘کے دوران کچھ عورتوں کوروتے دیکھاتوپکارکرکہا’’مجھے تمہارے آنسوؤں نہیں،خون کی ضرورت ہے‘‘۔اِس لیے شیخ رشید کی قربانی کا فتویٰ دیناٍٍتواُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
خاں صاحب کہتے ہیں’’دھرنے کی وجہ سے لوگ جاگ گئے ہیں‘‘۔لوگ کہتے ہیں کہ خان’’سچ‘‘نہیں بولتا۔لیکن دیکھ لیں کہ خاں صاحب نے کتنی سچی بات کہی ہے۔دھرنے میں جاکردیکھیںآپ سبھی لوگوں کوجاگتے پائیں گے۔وجہ یہ کہ ڈی چوک میں سونے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں۔اسی لیے توخاں صاحب ہرروزبنی گالہ کے محل میں چلے جاتے ہیں۔ویسے بھی اب توڈی چوک سے اتناتعفن اُٹھتاہے کہ اُس کی بَدبُو فیض آبادتک پہنچ رہی ہے اِس لیے کہاں کاسونااورکیسا سونا۔۔۔۔سینیٹرمشاہداللہ خاں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تقریرکرتے ہوئے ہمارے کپتان صاحب کو ’’قائدِانقلابِ کوکین‘‘اوروزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کو’’قائدِانقلابِ ٹھُمکا‘‘ قراردے دیااورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ’’میںیہ نہیں کہتاکہ خاں صاحب نشہ کرتے ہیں لیکن نشئی کی پکّی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک ہی بات کوبارباردہراتاچلاجاتاہے‘‘۔یہ رازکی باتیں ہیں،مشاہداللہ خاں جانیں یاعمران خاں،دونوں ہی خان ہیں،وہ مِل بیٹھ کے فیصلہ کرلیں کہ’’اندرکی بات‘‘کیاہے،ہم اِس مألے میں پڑنے والے نہیں۔ویسے اگرمشاہداللہ خاںیہ سمجھتے ہیں کہ دھرنا’’ٹھُس‘‘ہوگیاہے تویہ اُن کی غلط فہمی ہے۔دھرنااگر’’دھرنی‘‘میں بدل گیاتوکیاہوا’’امپائر‘‘توہمارے ساتھ ہے۔ہم نے تو لندن جاکر خفیہ ملاقات کرنی ہے ، نیاسکرپٹ لکھناہے اورحکومت پھر’’وَخت‘‘میں۔