سندھیوں کی ایک خوبی کی تو بہرحالِ تحسین کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی ’’دھرتی ماں‘‘ سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔اُن کے سیاسی اختلافات خواہ کتنے بھی ہوں لیکن جب بھی سندھ کی تقسیم کی بات ہوتی ہے تو وہ سارے اختلافات بھلا کر ایک ہو جاتے ہیں۔سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب کبھی سندھ پر دَورِ ابتلاء آیا تو سندھیوں نے اپنی جانیں دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ انگریزوں اور سندھیوں کی جنگ کے درمیان ایک سندھی سپوت ہوشوشیدی نے دمِ واپسیں یہ نعرہ لگایا’’مرسوں مَرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔ تب سے اب تک سندھ کی ہر ماں اپنے بچے کو پہلا سبق یہی دیتی ہے۔ یہ نعرہ آجکل انتہائی مقبول کہ بلاول زرداری اپنی ہر تقریرمیں یہ نعرہ ضرور لگاتے ہیں ۔اُدھر ہم پنجابیوں کا یہ عالم کہ ہمیں اِس سے کچھ لینا دینا نہیں کہ پنجاب کے دو ٹکڑے ہوتے ہیں یا دوہزار ۔نوے کے عشرے میں ایک نعرہ سنائی دیا ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پَگ نوں لگ گیا داغ‘‘ لیکن اس نعرے کو کہیں بھی پذیرائی نہ ملی اور بالآخر یہ’’ٹھُس‘‘ ہو گیا۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک چلی تو سندھیوں ،پختونوں اور ایم کیو ایم سے کہیں زیادہ زور و شور سے پنجابی سیاستدان پنجاب کے ٹکڑے کرنے کی مہم میں نکل کھڑے ہوئے لیکن آفرین ہے سندھیوں پر کہ اگر کہیں سے سندھ کی تقسیم کی ہلکی سی صدا بھی آتی ہے تو سارے سندھی مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں ۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی کی آتشِ شوق ایک دفعہ پھر بھڑکی اوراب کی بار اُنہوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے سندھ سمیت پورے پاکستان کو 20صوبوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کر دیاحالانکہ مقصد اُن کا مہاجروں کے لیے الگ صوبے کا حصول ہی ہے۔الطاف بھائی کا یہ مطالبہ کوئی نیا نہیں وہ تو 1992ء سے ایسی ’’ شُرلیاں‘‘ چھوڑتے چلے آ رہے ہیں ۔اُن کی شدید ترین خواہش ہے کہ مہاجروں کے لیے ایک ایسا صوبہ بنا دیا جائے جس کے وہ بلا شرکتِ غیرے مالک ہوں۔الگ صوبہ تو نہ بن سکا لیکن الطاف بھائی کو رات کے اندھیرے میں ملک سے فرار ہونا پڑا ۔تب سے اب تک وہ لندن میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے بیٹھے ہیں ۔الطاف بھائی کے مطالبے کے جواب میں بلاول زرداری نے کہا ’’مرسوں مَرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘۔تب الطاف بھائی کی رَگِ ظرافت پھَڑکی (جو اکثر پھڑکتی رہتی ہے) اور انہوں نے بلاول کو مخاطب کرکے کہا ’’تُم ابھی بچے ہو ،ابو کو بلاؤ۔اگر مرسوں مَرسوں، سندھ نہ ڈیسوں تو پھر سارا لیسوں‘‘۔تحریکِ انصاف نے بھی صوبوں کی تقسیم کے خلاف بات کی تو ایم کیو ایم جلال میں آگئی اور تحریکِ انصاف کے خلاف احتجاجی جلسہ کر ڈالا لیکن پھر ’’اندرواندری‘‘پتہ نہیں کیا ’’کھچڑی‘‘ پکی کہ الطاف بھائی نے تحریکِ انصاف کو خوش آمدید بھی کہہ ڈالا اورکپتان نے کراچی میں متاثر کُن جلسہ بھی کر دکھایا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس سلسلے میں لال حویلی والے کی خدمات حاصل کی گئی ہوں ۔ہمارے یہ شیخ رشید بھی بڑی ’’خاصے‘‘ کی ئے ہیں۔وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور اُنہیں میڈیا میں ’’اِن‘‘ رہنے کا فن بھی آتا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق وہ گزشتہ دَس ماہ میں الیکٹرانک میڈیا کو 170 انٹرویو دے چکے ہیں۔ گویا 300 دنوں میں 170 انٹرویو جو یقیناََ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے جس کا اندراج گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں تو ہونا ہی چاہیے ۔اُن کے ’’عزمِ صمیم‘‘ کا کیا کہوں کہ تحریکِ انصاف کے سو فیصد سونامیے اُن سے نفرت کرتے ہیں لیکن وہ پھر بھی کپتان صاحب کے پہلو میں پائے جاتے ہیں اور شنید ہے کہ خاں صاحب سب سے زیادہ سُنتے بھی اُنہی کی ہیں ۔وجہ یہ کہ شیخ صاحب ’’سبز باغ‘‘ دکھانے کے ماہر اور خاں صاحب تو رہتے ہی خوابوں خیالوں کی دنیا میں ہیں ۔خاں صاحب کے ساتھ اب علامہ قادری بھی شریک ہو گئے ہیں اور دھرنوں کی ’’ڈرامائی تشکیل‘‘ کی ذمہ داری علامہ صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے ۔اسی لیے علامہ صاحب کبھی کفن لہراتے ہیں ، کبھی قبریں کھُدواتے ہیں ،کبھی روتے رلاتے ہیں اور کبھی ’’خون‘‘ مانگتے ہیں ۔وہ تو یہی ’’بشارت‘‘لے کر نکلے تھے کہ پانچ سات ہزار لاشیں تو مل ہی جائیں گی لیکن حکومت ’’ستّو‘‘ پی کر سوئی رہی۔ اسی لیے علامہ صاحب نے وزیرِ اعظم ہاؤس ،پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر دھاوا بھی بولا لیکن اُن کی کشت و خوں کی یہ کوشش بھی رائیگاں ہی گئی کیونکہ وہ جدھر بھی گئے حکومت نے یہی کہا ’’میرا دَر کھلا ہے ، کھلا ہی رہے گا تمہارے لیے‘‘۔ اُدھر کپتان صاحب کی آتشِ شوق نے اُنہیں کہیں کا نہ چھوڑا ۔اب اُنہیں اتنے ناموں سے پکارا جاتا ہے کہ یاد رکھنا مشکل۔ طالبان خاں اور سونامی خاں تو اُن کے پرانے نام تھے ،اب اُن میں بہتان خاں ،انتشار خاں ،دھرنا خاں اور آوارہ خاں بھی شامل ہو گئے ہیں ،آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔خاں صاحب نے بھی زور تو بہت مارا ،سول نافرمانی کا اعلان کیا ،سونامیوں کو حکومتی بینکوں سے لین دین سے منع کیا ،ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کا کہا ،خانہ جنگی کی دھمکی دی اور اپنا بنی گالہ کا بجلی کا بِل دھرنے والوں کے سامنے جلا کر بھی دکھایا(یہ الگ بات ہے کہ زمان پارک لاہور والے تینوں بِل ’’اندروں اندری‘‘ادا بھی کر دیئے)لیکن ناکامی مُنہ چڑاتی رہی۔چھوٹے بڑے بھائی نے ہر حربہ آزما کے دیکھ لیا لیکن سوئی حکومت کو جگا نہ سکے اور اب یہ عالم ہے کہ
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں ،کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اِس بیمارئ دِل نے آخر کام تمام کیا
اِن ساری ناکامیوں کااگر کوئی ذمہ دار ہے توصرف علامہ صاحب اور کپتان صاحب کہ کپتان صاحب نے دَس لاکھ کے ہجوم اور ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کا دعویٰ کیا ۔شاہ محمود نے کہا ،دَس نہیں بارہ لاکھ لیکن جب لاہور سے نکلے تو صرف پانچ ہزار اور دو سو موٹر سائیکل ،اسلام آباد پہنچے تو دَس ہزار ۔اُدھر بوکھلائی ہوئی حکومت ’’ایویں خوامخواہ ‘‘ چالیس ہزار وردی والے لیے استقبال کو تیار ۔تین دِن بعد ’’لاہوریے‘‘تو ’’پھُٹ‘‘ گئے لیکن ڈی جے بَٹ کی مہربانی سے پنڈی وال اور اسلام آبادیے ’’میوزیکل کنسرٹ‘‘میں ناچتے گاتے رہے ۔ایسا دھرناکبھی دیکھا نہ انقلاب جس میں ہر روز ناچ گانے کی محفل ہو ۔علامہ قادری نے پہلے ایک کروڑ عقیدت مندوں کے ساتھ دو گھنٹے میں انقلاب لانے کا دعویٰ کیا ،پھر وہ بھی ’’چھوٹے بھائی‘‘کے تتبع میں دَس لاکھ پہ آ گئے لیکن اپنے سکولوں کے بچوں ،ٹیچروں اور اُن کے خاندانوں ،دیہاڑی دار مزدوروں اور عقیدت مندوں کے جَلو میں جب اسلام آباد پہنچے تو تعداد بمشکل بیس پچیس ہزار اور اب ’’دھرنوں کے چہلم‘‘ کے بعد بمشکل پانچ چھ ہزار جسے وہ انسانوں کا سمندر کہتے ہیں ۔جب کسی ندی نالے کو سمندر کہا جائے گا تو پھر یہی حال ہو گا جو آجکل ’’دھرنا بازوں‘‘ کا ہو رہا ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ مرسوں مَرسوں، سندھ نہ ڈیسوں،پنجاب نہ ڈیسوں ،بلوچستان نہ ڈیسوں اورخیبرپختونخوا نہ ڈیسوں جیسی باتیں تو بہت ہوتی ہیں لیکن کاش کہ دھرتی ماں کو کوئی ایسا رہنماء بھی مل جائے جو یہ کہے کہ’’مَرسوں مَرسوں ، پاکستان نہ ڈیسوں‘‘۔