تاریخ انسانی کا دامن ظلم و بربریت کے ان گنت الم ناک داغوں سے بھرا پڑا ہے ۔ اِن الم ناک داغوں میں سے کچھ ایسے بھی بد نما داغ ہیں کہ تاریخ کے اوراق بھی ان سے اپنا منہ چھپا لیتے ہیں اور نہایت شرمسار ہیں۔ روز اول سے ہی نیکی اور شر کی قوتیں آپس میں بر سر پیکار ہیں ۔ انسان جب نیکی پر آتا ہے تو کوہ ہمالیہ سے بھی بلند ہو جاتا ہے تو ایسے انسانوں کے پیروں سے اٹھنے والی خاک بھی فرشتوں سے پاک ہوتی ہے اور جب ظلم پر آتا ہے توظلم و بربریت کے ایسے باب رقم کرتا ہے کہ شیطان بھی حیرت سے دیکھتا ہے اور ماضی کے ظالموں کے وحشت ناک واقعات اُن کے سامنے معمولی اور ذرے نظر آتے ہیں۔خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے نفس اور غصے پر قابو رکھتے ہیں اور بد قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو نفس کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اپنے ظلم و جبر اور غصے کا سر عام اظہار کرتے ہیں۔
درج ذیل واقعہ بھی ایسا ہی ہے جب ایک جابر شخص نے انسانی حدود سے نکل کر درندگی اور سفاکی کا وہ مظاہرہ کیا کہ درندوں کی خون آشامی بھی اُس کے سامنے ہیچ تھی ۔چشم فلک نے تاریخ کے ہولناک مناظر میں سے ایک منظر دیکھا اور شرم سے اپنی آنکھ بند کر لی جب ایک شخص نے اپنا نامہ اعمال سیاہ کر ڈالا ۔ ظلم کا یہ ایسا داغ ہے کہ قیامت تک ہو نے والی بارش بھی اِس سیاہی کو نہیں دھو سکتی یہ واقعہ لاہور کے قریب ایک بستی میں پیش آیا۔روزانہ کی طرح آج بھی سکول میں بچے پڑھ رہے تھے اور خواتین ٹیچرز روزمرہ کی طرح اپنی اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے نبھا رہی تھیں ۔ کہ اچانک فضا فائرنگ سے گونج اُٹھی ۔معصوم بچے اور ٹیچر زابھی فائرنگ کی دہشت میں ہی تھے کہ ایک انسان وحشی درندے کی طرح اپنے باڈی گارڈز کے ہمراہ چادراور چار دیواری کی عزت اپنے پاؤں تلے روندتا ہو اسکول میں داخل ہوتا ہے ۔ ضمیر کی پستیوں میں رینگنے والا وحشی درندہ آتشیں اسلحہ سے لیس تھا۔ ظالم کا ماتھا ظلم و بربرییت کی شکنوں سے بھرا ہوا تھا ۔اور وہ اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کر رہا تھا ۔اُس کے منہ سے بکواس اور گالیوں کا آبشار اُبل رہا تھا وہ شرافت کی تمام حدیں عبور کر رہا تھا ۔ بات فائرنگ اور زبانی بکواس تک رہتی تو کسی حد تک ٹھیک تھا اُس کے لہجے کے جلال سے در و دیوار لرزاں تھے ۔ گالیاں دینے کے بعد بھی ظالم کے مشتعل جذبات سرد ہونے کی بجائے اور بھڑک رہے تھے ۔اُس کا لہجہ ہیبت و جروت اور غرور و تکبر سے بھرا ہو ا تھا اور ماتھے پر نفرت و غضب کی شکنیں پڑی ہوتی تھی اُس کے تر کش ستم میں جتنے بھی تیر تھے وہ آج سارے آزمانا چاہتا تھا ۔ ظالم آگے بڑھا معصوم پاک باز خاتون ٹیچر کی چادر مبارک کھینچ لی اور اُس کے معصوم چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی ۔مارنے کے ساتھ ساتھ بکواس اور گالیوں کا طوفان بدتمیزی بھی جاری تھا ۔ بچوں اور ٹیچروں نے خوف سے بھاگ بھاگ کر اپنی جان بچائی معصوم ننھے بچے حیرت اور بے بسی سے اپنی ٹیچر کو مار کھاتا دیکھ رہے تھے اور کرسیوں کے نیچے چھپ رہے تھے ۔ اُن کے دل و دماغ اور معصوم چہروں پر خوف و دہشت کے سائے لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا۔
ساری دنیا اِس ظلم سے بھر گئی تھی چشم فلک تاریخ کے ہولناک ترین مناظر میں سے ایک الم ناک منظر دیکھ رہی تھی ۔جبر و تشدد کی داستان کے جو باب ادھورے رہ گئے تھے وہ آج پورے ہونے جا رہے تھے بچوں اور ٹیچروں کے چہروں پر شدید دکھ اور کرب کے آثار نمایاں تھے ۔در و دیوار ساکت تھے اور محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے نبضِ کائنات اِس ظلم کی وجہ سے تھم گئی ہو ۔
معصوم معلمہ کو مارنے اور دھمکانے کے بعد بھی ظلم کی تسلی نہیں ہوئی اب وہ بار بار للکار رہا تھا کہ بلاؤ اپنے گھر والوں کو میرا جو بگاڑ نا ہے بگاڑ لو میں تم اور تمھارے گھر والوں کو بر باد کر دوں گا ۔بڑھکیں ما ر مار کر للکا ر رہا تھا کہ بلاؤ جس کو بلانا ہے ۔عجیب سناٹے کا عالم تھا ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر شے زندگی کی حرارت سے محروم ہو گئی ہو ۔ قیامت نازل ہو گئی تھی ۔ یہ ایسا دہشتناک منظر تھا کہ جس کے اثر سے تما م بچوں اور ٹیچروں کی قوتِ گویائی سلب ہو کر رہ گئی تھی ظالم گستاخی اور بے ادبی کے نئے نئے حربے آزما رہا تھا ۔ یہ ایسا درد ناک منظر تھا کہ ایک لمحے کے لیے ظلم کے بانی بھی لرز اٹھے تھے ۔ ظالم کے دل و دماغ پر نفرت و قہر کا غبار چھا یا ہو ا تھا ۔ تذلیل کا ایک اور باب مکمل کو چکا تھا آج وہ گستاخیوں کی ساری حدیں کراس کر گیا تھا ۔ ظالم با ر بار جب اُسے للکا ر رہا تھا کہ بلاؤں جس کو بلانا ہے تو معصوم ٹیچر نے آسمان کی طرف دیکھا اُس کی آنکھوں میں سارے زمانے کا دکھ اورالتجائیں چھپی تھیں کہ پروردگار میرا باپ تو تیرے پاس چلا گیا ہے اب میں کس کو بلاؤں کون اِس ظالم کا ہاتھ روکے پوری کائنات پر ظلم کے اندھیرے مسلط ہو چکے تھے ۔ آج نہ کوئی عمر فاروق تھا نہ ہی کوئی محمد بن قاسم ۔ یتیم بیٹی کے دکھ میں آسمان سے اداسیوں کی بارش ہو رہی تھی اور پوری بستی اور کائنات نے سوگ میں ماتمی لباس پہن لیا تھا ۔
ظالم اِس بات سے بے خبر تھاکہ اِس واقعہ نے اُس کا نامہ اعمال سیا ہ کر ڈالا ہے اور اُس کی آخرت برباد ہو چکی تھی ۔معصوم اور پاک باز ٹیچر ایک یتیم لڑکی جو اپنے پیٹ کے ایندھن کے لیے اِس سکول میں ٹیچر تھی اِس کا جرم یہ تھا کہ با ر بار کہنے پر جب ایک طالبِ علم نے اپنے بال نہیں کٹوائے تو اُس بچے کے بالوں کی ایک لٹ سے صرف چند بال کاٹ دیے تاکہ والدین اِس بچے کے بال کٹوادیں یہ ظالموں کہ لیے ایک ظلم عظیم اور گستاخی عظیم تھی ۔ آمر اور ظالم کے ماتھے پر شکنیں ابھری اور چند بالوں کو کاٹنے کے جرم کی سزا دینے یہ ظالم ظلم کی تمام حدیں عبور کر گیا اگر یہ ظلم کو ئی عام شخص کر تا تو اور بات تھی یہ ظالم جابر نفسیاتی مریض ایک عالم دین اور قاری تھا جو ایک مسجد میں بچوں کو قرآن و فقہ کی تعلیم دیتا تھا ۔ ایک ایسی اسلامی درسگاہ جس نے لاکھوں انسانوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکا لا بے شمار انسانوں کے دل و دماغ سے کفر اور گمراہی کے زنگ دھو ڈالے جہاں سے گزشتہ کئی عشروں سے صرف محبت پیار اور دین کی اصل خدمت اور پیغام دیا آج اُس عظیم درس گاہ پر ایسے ظالم علماؤ کا قبضہ تھا ۔ اِس الم ناک حادثے کے بعد باقی علماء اس واقعہ کی مذمت کرنے کی بجائے اول تو اِس واقعہ کے وجود سے ہی انکا ر ی تھے جب اہل بستی نے اُن کی اِس بات سے انکار کیا تو وہ اِ س ظالم شخص کو بچانے کے لیے میدا ن میں آگئے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ باقی اہلِ علم اور علما ء کرام فوری طور پر اس ظالم سے قطع تعلق کر لیتے اور حقیقی معافی کے طلب گار ہوتے لیکن وہ طرح طرح کی دلیلیں دینے لگے ایسے علما ءِ دین کی خدمت میں ادب کے ساتھ چند گزارشات پیش ہیں ۔
قرآن مجید ۔ سورۃھو د آیت نمبر 18۔ سن لو ظالم لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔
سورۃ جاثیہ آیت نمبر 19۔اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور پرہیز گاروں کا اللہ دوست ہے ۔
سورۃ بقرہ آیت نمبر 42۔اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤں اور سچ کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ ۔
سورۃ النساء آیت نمبر 107۔ان کی طرف سے عکالت (یعنی بحث ) مت کرو جو (گناہ کرے) اپنے آپ سے خیانت کرتے ہیں بے شک اللہ کسی دغا باز گناہ گار کو پسند نہیں کرتا۔
سورۃھود ۔ اور جو ظالم ہیں اُن کی طرف مت جھکو نہیں تو تمھیں (دوزخ کی) آگ لپیٹ لے گی ۔
حدیث مبارکہ ۔ ہماری ماں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں رسول کریم ؐ نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے قابلِ نفرت شخص وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو (بخاری شریف)۔
حضرت ابو موسٰی اشعری سے روایت ہے رسول کریم ؐ فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالی یقیناًظالم کو ڈھیل دیتا ہے پھر جب اُس کو پکڑتا ہے تو پھر اُس کو نہیں چھوڑتا یہ ارشا د فرما کر آپ ؐنے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی (سورۃ ھود آیت 102) اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اُس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کر تی ہے فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور درد ناک ہو تی ہے (بخاری مسلم )۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں ۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا کبیرہ گناہ یہ ہیں :
۱۔ اللہ کے ساتھ غیر کو شریک ٹہرانا
۲۔ والدین کی نافرمانی کرنا
۳۔ انسان کو قتل کرنا
۴ ۔ اور جھوٹی گواہی دینا
امامِ اعظم ابو حنیفہ ذہانت تدبر اور عقل و فراست میں کوئی آپ کا حریف نہیں تھا ۔ علامہ ذہبی کا قول ہے اولادِ آدم میں جو لوگ نہایت ذہین گزرے ہیں اُن میں ابو حنیفہ کا شمار ہو تا ہے ۔
علی بن عاصم کا قول اگر آدھی دنیا کی عقل دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو ابو حنیفہ کا پلڑا بھاری رہتا ۔
دنیا سے بے نیازی کا یہ عالم کہ جب صاحب اقتدار یزید بن عمر نے افسر خزانہ کی آفر کی اور آپ نے انکار کیا تو ظالم روزانہ امام کو دس درے لگاتا یہ ظالمانہ عمل کئی دن جاری رہا لیکن آپ کے پائے استقامت میں ہلکی سی جنبش بھی نہ ہوئی ۔ بعد میں خلیفہ منصور نے علم و عمل کے اِس سورج کو اندھیرے کی زنجیریں پہنا کر زنداں کے حوالے کر دیا تھا قید خانے میں بھی آپ کے درس کا سلسلہ جاری رہا فقہ حنفی کے مضبوط ستون امام محمدؓ نے اِسی تاریک مقام پر آپ سے تعلیم حاصل کی ۔امام مالکؓ جنہوں نے ساری عمر عشقِ رسول ؐ میں مدینہ پاک میں گزاری بڑھاپے میں انتہائی کمزوری میں بھی کبھی اونٹ کی سواری اِس لیے نہیں کی کہ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہاپنی سواری کے کھروں سے اس جگہ کو پامال کروں جس مقدس سر زمین پر میرے پیارے آقا محو خواب ہوں ۔ عمر کے آخری حصے میں مدینے سے باہر تشریف نہ لے جاتے کہ کہیں دیارِ غیر میں موت نہ آجائے۔ عشق رسول ؐ میں اکثر فرماتے کہ اگر ایک د ن بھی آقا ؐ کا روضہ نظر نہ آئے تو غلام کی جان پر بن جائے ۔ یہ وہ مردِ بزرگ تھے کہ جن کی ایک رات بھی ایسی نہیں گزری کہ جب پیارے نبی کریم ؐ کی زیارت نہ ہوئی ہو ۔ اور پھر جب عاملِ مدینہ جعفر بن سلیمان نے جبری طلاق اور جبری خلافت پر زور دیا ۔ جب آپ نے حاکم وقت کی ناجائز بات سے انکار کیا تو آپ کے ناتواں جسم پر کوڑوں کی برسات کر دی گئی لیکن امام مالک نے پھر بھی حق کا ساتھ دیا ۔امام شافعی جن کے بارے میں آپ کے استاد محترم امام مالک نے یو ں فرمایا : شافعی خدا تمھارے دل و دماغ کو مزید روشن کر دے تم ہی علم کے وارث ہو تم ہی میرے جانشین ہو۔پھر وہ لمحہ جب خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں آپ کو مکہ شریف سے بغداد تک ہاتھ باندھ کر لایا گیا اور دربار میں آپ کے سامنے آپ کے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا ۔ لیکن آپ حق پر قائم رہے اور پھر کون بھول سکتا ہے جب امام شافعی نے اپنے استاد امام مالک کی کتاب کی مخالفت میں اِس لیے کتاب لکھی کہ لوگ امام مالک کے قول کو نبی کریم ؐ کو قول پر ترجیح دے رہے تھے ۔اسی حق گویائی کے صلے میں آپ کو بھی شہید کر دیا گیا لیکن آپ نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا اور امام احمد بن جنبلؓ جن کے بارے میں انتہا پسند کہا کرتے تھے کہ اگر امام بنی اسرائیل میں ہوتے تو مرتبہ نبوت پر سر فراز ہوتے ۔آپ کی عشقِ رسولؐ کی یہ کیفیت تھی کہ آپ احادیث مبارکہ کے علاوہ کسی بھی تقریر و تحریر کی تربیت و تدوین کو ناجائز سمجھتے تھے ۔ عشقِ رسول ؐ کی ایک اور روشن مثال یہ تھی کہ آپ چالیس سال کی عمر سے پہلے مسندِ درس پر جلوہ اَفروزنہیں ہوئے ۔وہ نازک لمحہ جب فتنہ خلقِ قرآن شروع ہوا۔مامون رشید ۔معتعم باللہ اور واثق باللہ جیسے تین ظالم جابر بادشاہوں نے فتنہ خلقِ قرآن پر گواہی مانگی لیکن امام احمد نے حق کا ساتھ دیا آپ کو سرِ عام زنجیریں پہنا کر دربار بلایا گیا کوڑے مارے گئے اور جیل میں بند کر دیا گیا لیکن امام کے پائے استقامت میں ذرہ بھی جنبش نہیں ہوئی اور حق کا ساتھ دیا ۔
درج بالا آئمہ کرام کا ذکر اِس لیے کیا کہ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی ۔ اب جو عالم دین حق کا ساتھ دیں اللہ تعالی اور نبی کریم ؐ کے احکامات اور سنتوں پر حقیقی عمل کریں وہ ہمارے ماتھے کو جھومر اور قابل احترام ہیں لیکن جو علماء کرام حق کا اور مظلوم کا ساتھ نہ دیں بلکہ ظالم اور دنیا کا ساتھ دیں وہ علماء سوء ہیں ۔ علمائے دین سے مراد علمائے سوء ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو علم کے ذریعہ دنیا کی عیشُ وعشرت اور جاہ و منزلت یعنی شہرت چاہتے ہیں ۔
عماء سوء احادیث کی روشنی میں :
۱۔ قیامت میں سخت ترین عذاب اس عالم کو ہو گا جس کو اللہ نے اس کے علم سے کوئی نفع نہ دیا ہو ۔۲۔ آخری زمانے میں جاہل عابد اور فاسق علماہ ہونگے ۔۳۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں ، مجھے امت کے سلسلے میں سب سے زیادہ خوف منافق عالم سے آتا ہے لوگوں نے عرض کیا منافق عالم کیسے ہو سکتا ہے فرمایا زبان سے عالم ہو دل اور عمل کے اعتبار سے جاہل ۔
درج بالا چند حقائق اُن علماء سوء کی خدمت میں پیش ہیں کہ خدارا مظلوم کا ساتھ دیں ۔ علماء کرام کی ایک بارات ہے جو ادھر اُدھر بھاگ دوڑ کر رہی کہ دینی تشخص خطرے میں ہے ادارے کا وقار اور عزت خطرے میں ہے ۔ لوگ باتیں بنا ئیں گے اِن سے کون پوچھے کہ مظلوم بیٹی کے آنسو اور دکھ بھی دیکھیں 100سال بعد کوئی بھی نہیں ہو گا ہم تمام لوگ قبروں میں ہوں گے جن لوگوں کے کفنوں پر مظلوم بیٹی کی آہ کے داغ ہونگے اُن داغوں کو قیامت تک ہونے والی بارشیں بھی نہیں دھو سکیں گی ۔سلا م اُن بستی والوں کو جنہوں نے مظلوم بیٹی کا ساتھ دیا ۔ یاد کرو وہ دن روزِ محشرجب ایک طرف مظلوم بیٹی ہوگی جس کے ساتھ نبی کریم ؐ ہو نگے کیونکہ آپ ؐ کا فرمان ہے میں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ ہونگا ۔ ڈرو یتیم بیٹی کی آہ سے کہ اُس آہ اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی بھی نہیں ہو گا ۔