لندن ملین مارچ،تحریک اور سیاست

Published on October 20, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 437)      No Comments

Athar
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے26اکتوبر کر لندن میں ’’ ملین مارچ ‘‘ کے انعقاد کا اعلان کیا ہے ۔اعلان کردہ پروگرام کے مطابق مظاہرین 26اکتوبر کو دن ایک بجے بیرسٹر سلطان محمود چودھری کی سربراہی میں لندن کے ٹریفلگر سکوائر اکٹھے ہو کر 10ڈاؤننگ سٹریٹ کی طرف مارچ کریں گے۔بیرسٹر سلطان محمود نے لندن ملین مارچ کی حمایت اور شرکت کے لئے مسلم لیگ(ن)جماعت اسلامی،مسلم کانفرنس سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں انہیں لندن ملین مارچ کے لئے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی۔گزشتہ کئی دنوں سے بیرسٹر سلطان محمود برطانیہ کے مختلف شہروں،قصبوں کے دورے کرتے ہوئے لندن مارچ کی کامیابی کے لئے رابطوں میں مصروف ہیں۔برطانیہ میں پاکستانیوں کی کل تعداد تقریبا تیرہ لاکھ ہے جس میں سے تقریبا چھ سے آٹھ لاکھ افراد کا تعلق کشمیر سے ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مسئلہ کشمیر کی باز گشت مختلف حوالوں سے عالمی سطح پر سنی گئی ۔سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا جس سے ریاست کشمیر میں بھی ریفرنڈم کرانے کی بات ہوئی۔بھارت نے چند ہفتے قبل طے شدہ خارجہ سیکرٹری سطح کی ملاقات ملتوی نہیں بلکہ منسوخ کر نے کا اعلان کیا اور بھارت نے اسکی وجہ حریت رہنماؤں سے نئی دہلی میں پاکستانی سفیر کی ملاقات بتائی۔اس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کو بھر پور طور پر اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم اور پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے فرار کی بھارتی کوشش کو بے نقاب کیا۔بھارتی حلقے بہت تلملائے لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں پاکستان کے ساتھ مزاکرات کی بات کی۔لیکن اس کے بعد بھارت کی طرف سے جموں سے ملحقہ ورکنگ باؤنڈری اور کشمیر کی سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) کے مختلف علاقوں پر شدید فائرنگ اور مارٹر شیلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جو مسلسل کئی دن جاری رہا۔گزشتہ روز پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے ڈائریکٹر جنرل نے ٹیلی فون کی ہاٹ لائین پر بات کی۔اس کے ایک دن بعد آزاد کشمیر میں جمعرات کو بھارتی فوج نے ایک مرتبہ پھر فائرنگ کی جس سے آزاد کشمیر کے چند معصوم بچے شدید زخمی بھی ہوئے۔
انہی دنوں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں صدی کا بدترین تباہ کن سیلاب آیا جس سے سینکڑوں ہلاکتوں کے علاوہ وادی کشمیر تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔بھارت کی طرف سے سیلاب سے شدید متاثرہ کشمیر میں امدادی سرگرمیوں پر کوئی وتوجہ نہیں دی گئی،الٹا بھارتی علاقوں سے امدادی سامان پر سرکاری ’این او سی‘کی شرط عائید کر دی اور بغیر’ این او سی‘ والے مال کو ضبط کرنا شروع کر دیا۔اگر آزاد کشمیر کے راستے مقبوضہ کشمیر امدادی سامان بھیجا جاتا تو المناک قدرتی آفت سے دوچار مصائب زدہ کشمیریوں کی کچھ معاونت ہو سکتی تھی۔لیکن بھارت نے کشمیریوں کی نہ تو خود مدد کی اور نہ کسی کو باہر سے ان کی مدد کی اجازت دی۔بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑہنے کی صورتحال میں پاکستانی حکومت بھی مقبوضہ کشمیر کے سیلاب زدگان کے لئے کچھ نہ کر سکی۔
آزاد کشمیر میں کچھ عرصہ قبل کل جماعتی رابطہ کونسل قائم کی گئی جس میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر کے نمائندے بھی شامل ہیں۔سیاسی تنظیموں کی اس رابطہ کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کچھ سرگرمیاں تو کیں لیکن کوئی اہم اور نمایاں کام نہیں کیا جا سکا۔آزاد کشمیر کے آئین میں مجوزہ ترامیم کا معاملہ بھی اس رابطہ کونسل کے زیر غور آیا لیکن یہ معاملہ بھی پیش رفت کی رفعت حاصل نہ کر سکا۔یوں کل جماعتی رابطہ کونسل کی مجموعی صورتحال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کشمیر کاز سے خیر سگالی،ہم آہنگی سے مل جل کر کام کرنے کی خواہش و کوشش کو ،آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے بخوبی استعمال کیا ہے اور سب ہنسی خوشی خوب استعمال ہوتے چلے آ رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے سیلاب زدگان کی مدد بھی کل جماعتی رابطہ کونسل کے عمل کا موضوع نہ بن سکی۔
چند روز قبل میں نے فیس بک میں اپنے سٹیٹس پہ لندن ملین مارچ کے حوالے سے رائے طلب کی تو اس پر کئی افراد نے اپنے کمنٹس دیئے ۔باسط اعوان نے کہا ضرور ہونا چاہئے،عابد ہاشمی نے کہا کہ یہ بتیاں لندن میں ہی جلتی بجھتی ہیں،شمس رحمان نے بیرسٹر صاحب کے ملین مارچ کی خصوصی ویب سائٹ لنک کر دی اور کہا کہ اس مارچ کا مقصد اقوام متحدہ کی قرار داد کو صرف بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرانا ہے،یہ فیئر نہیں ہے کیونکہ تمام ریاست مقبوضہ ہے،شیراز احمد نے لندن کے ایک اردو اخبار میں دیا گیا اپنا خیر مقدمی اشتہار لنک کر دیا، ابراہیم گل نے ملین مارچ کی کامیابی کی دعا کی،طاہر تبسم نے کہا کہ یہ کشمیر کے حوالے سے بہترین کوشش ہے۔اسلم میر نے کہا کہ نا صرف کشمیری بلکہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کے علاوہ انڈین بڑٹش سکھ بھی مارچ میں شریک ہوں گے۔جنید فاروق نے کہا ماشاء للہ۔فرید احمد نے کہا کہ بیرسٹر صاحب نے اس مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے ’یو کے‘ کے72قصبوں کا دورہ کیا ہے ،اب یہ کشمیریوں پر منحصر ہے کہ وہ تحریک آزادی کشمیر سے کتنے مخلص ہیں کیونکہ کسی کو مارچ میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا،لوگوں کو بتانا چاہئے کہ سیلاب کے بعد یہ وقت دنیا کی سیاست کے لئے کتنا اہم ہے،سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم اور برطانیہ کے آئندہ الیکشن کے حوالے سے ۔راجہ شہزاد نے کہا کہ سب لفظوں کا ہیر پھیر ہے۔عبدالخالق وصی نے کہا کہ کیایو کے میں ایک ملین کشمیری ہیں؟ایک ملین تو پاکستانی بھی نہیں ہیں ،تاہم یہ ایک اچھی کوشش ہے اور اس کی حمایت ہونی چاہئے۔محمد رفیع کہا کہ یو کے میں کم از کم ہاف ملین کشمیری ہیں اگر دو تین لاکھ بھی آ گئے تو بڑی بات ہو گی۔تاہم کئی اس ملین مارچ کے ناقد بھی دیکھے گئے،لندن سے ہی ارشاد ملک نے کہا کہ ان لوگوں نے کشمیر کے سیلاب کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا ،انہوں نے اب تک ایک کمبل بھی سرینگر نہیں بھجوایا ،یہ لوگ ہجیرہ بھیجنے کے لئے رقم اکھٹی کر رہے ہیں سرینگر کے لئے نہیں،ہمارا نام استعمال کرتے ہوئے ’ انجوائے‘ کر رہے ہیں،میں صورتحال دیکھ رہا ہوں،سر آئینہ تیرا عکس ہے پس آئینہ کئی اور ہے،یہ لوگ اپنے مفادات کے لئے کشمیر،کشمیریوں اور کشمیریات کو کتنا استعمال کریں گے؟میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ چند ہفتے قبل ہمیں برٹش پارلیمنٹ میں کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ارشاد ملک نے مزید کہا کہ آزاد کشمیر کی پی ایم شپ کے لئے مقبوضہ کشمیر کو بھی استعمال کرو ،اچھی بات ہے،وہ لوگ تو پیدا ہی اسی لئے ہوئے ہیں کہ ان کا استحصال کیا جائے۔فاروق زبیر نے کہا کہ لندن کوئی فورم نہیں ہے،احتجاج کرنے کا اگر کوئی فورم ہے تو وہ اقوام متحدہ کا ہیڈ آفس ہے،ایک مرتبہ ایک شخص لندن میں کشمیر پر احتجاج کر رہا تھا تو ایک بوڑھے برٹش نے پوچھا کہ کیا تمھارے خیال میں کشمیر لندن میں ہے۔لندن ملین مارچ کاآزاد کشمیر کی اندرونی سیاست سے تعلق ہونے کا اک تاثر بھی سامنے آیا،اسد علی قریشی نے کہا کہ لندن مارچ آزاد کشمیر کی سیاست میں تبدیلی لائے گا۔ڈکٹر سید نذیر گیلانی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود کے پاس لندن میں اس ملین مارچ کے لئے تمام اچھی وجوہات ہوں لیکن ان کے پاس اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ انہوں نے برطانیہ ،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی تمام کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں لیا۔گیلانی صاحب نے کہا کہ برطانیہ میں کشمیر کے لوگوں کا ملین مارچ منظم ہونا چاہئے ،مجھے ملین مارچ میں شرکت کی دعوت کا ایک ٹیکسٹ میسج ملا ہے۔جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی مارچ میں شرکت کے لئے آ رہے ہیں لیکن آزاد کشمیر اسمبلی کا کوئی ممبر،حتی کہ اوور سیز ممبر اسمبلی بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔بیرسٹر صاحب کو کشمیری صحافیوں،کشمیر کمیٹی کے ممبران،آزاد کشمیر اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر،چنداسمبلی ممبران،جسٹس شریف حسین بخاری،ڈاکٹر علی محمد میر،ڈاکٹر اے باسط، منظور حسین گیلانی، مجید ملک،سردار خالد ابراہیم،جی ایم میر،یوسف زرگر،امان اللہ خان اور ایسی دیگر شخصیات اور حریت کانفرنس خصوصا آزاد کشمیر چیپٹڑ کو بھی ملین مارچ میں شرکت کی دعوت دینی چاہئے ۔
مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے المناک مصائب کی اس صورتحال اور واقعات کے دوران ہی بیرسٹر سلطان محمود نے لندن میں ملین مارچ کے انعقاد کا اعلان کیا اور سرگرمی سے اس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ لندن کے اہم علاقے میں ایک بڑی تعداد میں منقسم ریاست کشمیر کے باشندوں کا پرامن احتجاجی مارچ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری کو کشمیریوں کی آواز کا پیغام دے سکتی ہے لیکن اس ملین مارچ کو تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم سنگ میل کا نام دینا میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔آزاد کشمیر کی اکثر سیاسی جماعتیں لندن ملین مارچ کی حمایت کر ہی ہیں اور اس میں شرکت بھی کریں گی لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود چودھری کو ان کی اپنی پی پی پی آزاد کشمیر اور آزاد کشمیر کی حکومت کی کتنی حمایت حاصل ہے؟گزشتہ دنوں بیرسٹر صاحب کے دو قریبی ساتھیوں سے الگ الگ تقریبات میں ملاقات ہوئی،لندن ملین مارچ کی بات ہوئی،میں’’ ملین‘‘ کا لفظ استعمال کرنے پر معترض ہوا تو ایک صحافی نے ہنستے ہوئے کہا کہ ملین کا لفظ سیاسی ضرورت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔منتظمین کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ بیس پچیس ہزار کا اجتماع کامیاب اجتماع ہو گا۔اس بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ انسان کی ’’ باڈی لنگویج‘‘ سے ہی اس کے اخلاص کا اندازہ ہو جاتا ہے جس میں چال ڈھال،روئیہ ،انداز اور بول چال بھی شامل ہوتے ہیں۔جب انسان ایسے الفاظ استعمال کرے جس کی صداقت پر خود اس کو اور اس کے ساتھیوں کو یقین نہ ہو اور نہ ایسا ہونا ممکن ہو اور نا ہی ایسا کیا جا سکے تو ایسے بات کو پنجابی میں’’ بڑھک‘‘ ،اردو میں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہتے ہیں۔بیرسٹر سلطان محمود چودھری اس مارچ کو ’’ لندن ملین مارچ‘‘ کی جگہ ’’لندن کشمیر مارچ‘‘ کا نام دیتے تو مناسب اور موزوں رہتا۔بیرسٹر صاحب نے اپنے طور پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا،اس کے لئے سیاسی جماعتوں ،شخصیات کی حمایت بھی لے لی لیکن اگر بیرسٹر صاحب اس لندن مارچ کے لئے سیاسی جماعتوں،شخصیات اور کشمیر سول سوسائٹی سے مشاورت حاصل کرتے تو کشمیریوں کے اس اجتماع کو مزید قوت مل سکتی تھی اور اسے موثر بنایا جا سکتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ماضی میں ایک مرتبہ برطانیہ کے مشہور عالم فلاسفر،ماہر ریاضیات،تاریخ دان ،سماجی رہنما، سیاسی محرک ،ادیب ،شاعر، نوبیل انعام یافتہ برٹرینڈ رسل نے کشمیریوں کے حق کے لئے تن تنہا لندن کی سڑکوں پہ مارچ کیا تھا،اس وقت برطانیہ میں کشمیری نہ ہونے کے برابر تھے،آج برطانیہ میں منقسم ریاست کشمیر کے لوگ لاکھوں میں ہیں،توقع کی جاتی ہے کہ لندن کا یہ کشمیر مارچ خالصتا کشمیر کاز کے لئے ہی کیا جائے گا اور کشمیر کاز کے لئے ہی ہو گا،اگر اس میں علاقائی و قبیلائی تعصب،اقتدار کی مفاداتی سیاست کار فرما رہی تو ہمیں ناقابل اصلاح ہونے کی تہمت پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہی پڑے گی۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog