کشمیر ملین مارچ بدنظمی ۔۔ سازش یا سیا ست؟

Published on November 1, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 515)      No Comments

as
تحریر : اصغر حیا ت
کشمیریوں کا عظیم الشان اجتماع تھا ۔ایسا اجتماع برطانوی دارلحکومت میں شاید ہی کوئی قوم کرسکی ہو۔ہر طرف پر امن مظاہرین تھے۔ہاتھوں میں کشمیری جھنڈے ،بینرز اور پلے کارڈز اٹھا ئے۔فضا ، ووئی وانٹ فریڈم ہم کیا چاہتے ہیں آزادی ، ہے حق ہمارا آزادی کے فلک شگاف نعروں سے گونج رہی تھی ۔ٹریلفلگر اسکوائر لاک چوک سری نگر کے مناظر پیش کررہاتھا۔گورے پریشان تھے یہ انسانوں کا سمندر کہاں سے امڈ آیا ؟ میڈیا عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا تھا۔طرح طرح کے تجزیے اور تبصرے شروع ہوچکے تھے ۔بھارتی ایوانوں میں کھلبلی مچ چکی تھی ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا بد نما چہرہ دنیا کے سامنے آشکا ر ہورہا تھا ۔فوجوں کی بندوق کے سائے میں رہنے والا کشمیری نوجوان جسے پرامن احتجا ج کا بھی حق نہیں مطمعن تھاکہ اس کی آواز دنیا تک پہنچانے میں اس کے بھا ئی پیش پیش ہیں۔ دنیا بھر سے کشمیریوں کے قافلے ٹریلفلگر اسکوائر پر پہنچ چکے تھے ۔ قائدین کی تقاریر جاری تھیں ۔شر کا ء میں جوش وخروش انتہا کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔بھر اچانک سیاست ہوئی ؟ سازش ہوئی ؟ کیا ہو ا ؟ ما رچ کچھ دیر کے لئے بدنظمی کا شکا ر ہوگیا ۔اور دشمن جو گزشتہ گئی روز سے منہ چھپاتا پھر رہا تھا اس کو ما رچ کے حوالے سے سوال اٹھانے کا موقع میسر آگیا ۔
گیارہ ستمبر کو جب آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم نے لندن میں ’’کشمیر ملین مارچ ‘‘ کا اعلان کیا تو پاکستان کے اندرونی حالات کوئی تسلی بخش نہ تھے ۔ اپوزیشن کی جماعتیں اسلام آباد میں چار ہفتوں سے دھرنا دیے بیٹھی تھیں ۔ایک طرف شمالی وزیرستان میں آپریشن جاری تھا تو دوسری طرف سیلاب نے ملک کے طول و عرض میں تباہی مچا رکھی تھی ۔پاکستان کو اندرونی مسائل میں الجھا پا کربھارت نے موقع غنیمت جانا اور پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت رہنماؤں کو بنیاد بنا کر سیکٹری سطح کے مذاکرات ختم کر نے کا اعلان کردیا۔یہ مودی سرکار کا پاکستان کو واضع پیغام تھا کہ اگر پاکستان کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کی حمایت جاری رکھے گا تو اسے مذاکرات کے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔اسی طرح بھارت مسئلہ کشمیر پر کسی بھی ملک کی ثالثی کی پیش کش کو مسترد کرتا آیا ہے۔ستمبر کے آواخر میں جب وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کے متعلق دوٹوک موقف اپنایا اور عالمی فورم پر کشمیریوں کی مشکلا ت کا ذکر کیا تو بھا رتی میڈیا تلملا اٹھا ۔ بھارتی وزیر اعظم کو اقوام متحدہ میں خطاب کے لئے تیا ر کردہ اپنی تقریر تبدیل کرنا پڑی ۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ متنازعہ مسائل اقوام متحدہ کے فورم پر لانے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔بھارتی وزیر اعظم امریکہ کا دورہ مکمل کر کے اور پاکستان کیخلاف شکایتوں کا انبار لگا کر واپس لوٹے ۔ان کے دورے کو بھارتی میڈیا نے کامیاب دورہ قرار دیا ۔بھارتی میڈیا ابھی فتح کے شادمیانے بجارہا تھا کہ برسٹر نے ملین مارچ کے لئے کمپین کا آغاز کردیا بھا رت نے شروع میں اسے خاص اہمیت نہ دی ۔بھارت کا خیال تھا کہ برسٹر اتنی بڑی تعداد میں لوگ اکھٹے کرنے میں کا میاب نہیں ہونگے اور یہ ایک رسمی طرز کا احتجاج ہوگا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں آر پارکی کشمیری قیادت اور دنیا بھر میں کشمیر کا ز کے لئے کام کرنے والی تنطیمیں سرگرم ہوئیں تو بھا رت بوکھلا ہٹ کا شکا ر ہوگیا اور مارچ رکوانے کے لئے تمام حربے استعمال کیے بلکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا،مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج نے لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب سے رابطہ کر کے ان سے استدعا کی کہ ملین مارچ کے پروگرام کو منسوخ کیاجائے لیکن برطانوی وزیر خارجہ نے پروگرام کو منسوخ کرنے سے واضح طور پر انکار کر دیا۔ اس کے بعد شسماسوراج نے برطانوی نائب وزیراعظم نک کلیگ سے رابطہ کر کے انہیں کشمیر ملین مارچ کو منسوخ کرنے کی بھارتی خواہش سے آگاہ کیا تاہم برطانوی نائب وزیراعظم نے بھی بھارتی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ برطانیہ میں اظہار رائے کی آزادی ہے چنانچہ ہم اس ملین مارچ کے انعقاد پر کوئی پابندی نہیں لگاسکتے اس پر لندن میں بھارتی سفیر نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو خط لکھ کر ان سے26اکتوبر کے ملین مارچ میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کی ۔بھارتی وزیرخارجہ نے اس ملین مارچ کو بین القوا می سر زمین پر بھارت کیخلاف کھلی جنگ قرار دیا ۔
اب اتنی بڑی مخالفت کے باوجود ہونے والے ملین مارچ کو مثالی ہونا چاہیے تھا تاکہ دشمن کو بات کرنے کا موقع نہ ملتا لیکن بد قسمتی سے برسٹر سلطان نے اپنے ہی بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ملین مارچ میں بدنظمی کا سامان پیدا کیا ۔تمام جماعتوں کی مشترکہ مشاورت سے تیار کردہ ضابطہ اخلاق میں یہ طے پایا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنا جھنڈا نہیں لائے گی ، کوئی سیاسی جماعت اپنے نام سے کوئی بینرز نہیں لائے گی ،صرف کشمیر کا جھنڈا لا یا جاسکے گا، کشمیرکی آزادی پر مبنی پلے کا رڈز لائے جائیں گے۔کسی سیاسی جماعت کے نعر ے نہیں لگیں گے ۔اور تمام سیاسی جماعتوں کو ورکنگ کمیٹی میں نمائندگی دی جائے گی ۔لیکن جب ٹریلفلگر اسکوائر پر جلسے کا اہتمام کیا گیا تو منظراس وقت مختلف ہوگیا ، جب پیپلز پارٹی کے چیر مین بلاول بھٹو یکا یک بیچ میں آٹپکے اور سٹیج سے جئے بھٹو کے نعرے لگائے گئے اور ملین مارچ واضح طور پر پیپلز پارٹی کے جلسے کا منظر پیش کرنے لگا ۔اس پر مارچ میں موجود دوسری جماعتوں نے احتجاج کیا گیا۔کچھ کارکنان نے اسٹیج کی طرف انڈے اور بوتلیں پھینکیں او ر مارچ بدنظمی کا شکا ر ہوگیا۔اور دشمن کو مارچ ناکام ہونے کا واویلا کرنے کا موقع میسر آگیا ۔شاید برسٹر نے مشکلات کا شکار ،ہچکولے کھاتی سیاسی ناؤ کو بچانے کے لئے ایک تیر سے دو شکا ر کرنے کی کوشش کی ہو ۔ذمہ داری مارچ کے منتظمین پر مکمل طور پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے اور ایسی صورتحال سے بچا جاتا۔ لیکن اگر ایسی صورتحال درپیش آگئی تھی تو وہاں موجود تمام قائدین کی ذمہ داری تھی کہ شرکاء کو ایسی بدنظمی سے روکتے جس سے دشمن کو مارچ کو ناکام قرار دینے کا موقع میسرآیا۔ہمارے لیڈران، حکمرانوں اور سیاستدانوں کا المیہ رہا ہے کہ انہوں نے ایک سیاسی نعرے کے طور پر کشمیر کو استعما ل کیا۔اور آج بھی یہی کیا جارہا ہے ۔بلا ول ہوں ، برسٹر ہوں، زدراری ہوں ، میاں صاحبان ہوں یا کہ عمران خان کشمیر کے نام پر سیاست چمکا نا چاہ رہے ہیں ۔اس سے کشمیر کا ز کو ناقابل تلا فی نقصان ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کاز کے لئے مخلصانہ کوششیں کی جائیں اور سیاست کو کشمیر سے جدا کیا جائے ورنہ یہ سیاست وہی بندوق ہے جو اس سے پہلے بھی شہ رگ کا لہو چاٹ چکی ہے۔
ؔ اب میرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی میرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے میری سمت کے جو
اس سے پہلے میری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Blog