بہت دنوں سے اس عنوان پر کالم لکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا مگر ٹائم نہیں نکال پا رہاتھا۔ خان صاحب کے ایک خطاب نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کردیا۔ عمران خان نے دس محرم سے پہلے اپنے دھرنے کے خطاب میں جماعت اسلامی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ چئیرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ’’ سراج الحق نے ہمیں اور (ن) لیگ کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ ہم بھی جماعت اسلامی کی طرح ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی سمیت سب کہہ رہے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں ہے جبکہ جس جس نے دھاندلی کی نوازشریف نے ان سب کو نوازا ہے۔جب ملک میں مجرموں کو نوازا جائے اور ایماندار لوگوں کو باہر نکالا جائے تو ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے؟ جماعت اسلامی وکٹ کے دونوں جانب نہ کھیلے اور فیصلہ کرے کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہے یا (ن) لیگ کے کیونکہ ہماری نوازشریف سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں اس لیے جرگے اور مذاکرات پر وقت برباد نہ کیا جائے، ہم نوازشریف سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے ‘‘۔
خان صاحب کے اس بیان کے ساتھ ہی ان کے دست راست اسد عمر نے تو جماعت اسلامی کو خیبر پختونخواہ میں شامل ہونے کے طعنہ بھی دے مارا۔کوئی ان بھولے بادشاہوں کو بتائے کہ وکٹ کے دونوں طرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ سب سیاستدان مل کرکھیل رہے ہیں۔ پی پی ایک طرف نوازشریف کا کلمہ پڑھ رہی تو دوسری طرف اشاروں اشاروں میں اس کو دھمکی بھی دے رہی ہے۔ خورشید شاہ حکومت کی حمایت میں بیان دیتا ہے تو دوسری طرف پی پی کا دوسرا عہدے دار حکومت کوڈرانے کے لیے دھرنے کا خوف دلاتا ہے۔ جس کی واضح مثال آپ سب کے سامنے ہے کہ’’ مہاجر گالی‘‘ کا بیان خورشید شاہ نے دیا اور اسمبلی میں معافی ن لیگی وزیرمانگ رہے تھے۔زرداری نواز زرداری بھائی بھائی کا نعرہ لگارہا ہے تو بلاول حکومت کو دھمکی دے رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ کیا توپورا ملک گونوازگو ، گو ضیا کا بچہ گوکانعرہ لگائے گا۔ ان حالات میں ن لیگ تو درمیان میں پھنسی جیسے’’ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہو‘‘۔وہ کسی کے نہ مانے تو بھی مرگئے اور کسی کی مان لے تو بھی مر گئے۔
وکٹ کے دنوں طرف جہاں پی پی اور دوسری جماعتوں کا رول ہے ادھر خان صاحب آپ کا رول بھی کسی سے کم نہیں۔ آپ ایک طرف استعفے دے رہے ہو اور دوسری طرف آپ انفرادی طور پر پیش ہونے سے ڈر رہے ہو۔ اگر آپ واقعی استعفے دینا چاہتے ہو توپھر اپنے باغی کی طرح انفرادی طور پر جا کر اسمبلی فلورپر کھلم کھلا استعفیٰ دیکر ثابت کردو کہ آپ ان اسمبلیوں میں بیٹھنا نہیں چاہتے۔یہی نہیں ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں ’’کے پی کے‘‘ کی حکومت کو بھی ٹھوکر ماردو کیونکہ یہ بھی اسی الیکشن کمیشن کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے جو نوا زشریف کو لائی ہے۔پھر ٹھیک طریقے سے دما دم مست قلندر ہوگا۔
یہ کہاں کا دستور ہے کہ ایک طرف آپ نوازشریف کو وزیراعظم ماننے کے تیار نہیں اور دوسری طرف آپ کا وزیراعلیٰ نوازشریف سے ملاقاتیں کرتا پھر رہا ہے۔ایک اور بات شہباز شریف میٹروبس چلائے تو وہ پنجاب کا پیسہ ضائع کررہا ہے اور پرویز خٹک چلائے تو وہ عوام کی خدمت کررہا ہے ۔ یہ کونسی وکٹ ہے ایک طرف کی یا دونوں طرف کی؟
یہی نہیں مجھے یاد ہے جب باغی ن لیگ چھوڑ کر آیا تو وہ حقیقی باغی تھا کیونکہ اس نے حق کی خاطر آواز بلند کی اور آج جب اس نے پی ٹی آئی کو چھوڑا تو وہ دو نمبر باغی بن گیا۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟آپ پھرایک اور غلطی کررہے ہو کل جس ممتا ز بھٹو نے اپنی پارٹی ن لیگ میں ضم کی تھی اور آج آپ اس سے مراثم بڑھا رہے ہیں۔قریشی صاحب ن لیگ کے ناراض لوگوں کو ملا نے کے لیے سندھ کا دورہ بھی کرآئے ہیں تو کل کو ایسے لوگوں کی کیا گارنٹی ہے کہ جن کو اب ن لیگ کی حکومت میں کچھ نہیں ملا وہ آپ کے ساتھ نہ کچھ نہ ملنے پر ساتھ رہیں گے؟
خان صاحب آپ ہی نہیں ہم بھی پاکستان کو کرپشن سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم بھی بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ آپ کو نئے پاکستان کے لیے ان پرانے سیاستدانوں سے چھٹکارا پانا ہوگا کیونکہ ایسے مفادپرست لوگ اپنے مفاد کے لیے کسی سے بھی مل سکتے ہیں۔ کل سردار آصف احمدعلی قصور میں آپ کا ساتھ دینے کااعلان کرچکا تھا مگر آج وہ طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔ مجھے یاد ہے جب نوازشریف جلا وطنی کاٹ کرواپس آیا تو مصطفٰی کھر نوازشریف کے ساتھ ساتھ تھا مگر اب دھرنے میں اس کو طاہر القادری کے ساتھ دیکھاگیا۔ دونوں وکٹوں کی جو بات آپ نے کی اسکی زندہ مثال تو آپ کے سامنے ہے کہ قادری صاحب اور آپ اکٹھے دھرنا دے رہے تھے اور آج قادری صاحب کینیڈا جا بیٹھے ہیں اور آپ ابھی بھی اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہو۔
سراج الحق تو صرف ایک طرف کھیل رہے ہیں وہ بھی ملک کی طرف۔آپ کے استعفے منظور نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ سراج الحق صاحب ہیں۔ جنہوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ ابھی ان استعفوں کو منْطور نہ کریں۔ وہ ہمیشہ آپ کو اور حکومت کو ڈائیلاگ کا درس دیتے رہے ۔ آج سراج الحق صاحب بھی خوش ہونگے کہ ان کی محنت رنگ لے آئیں کیونکہ آپ نے آج کم ازکم یہ تو مان لیا کہ سپریم کورٹ کی قیادت میں اگر دھاندلی کی انکوائری ہوتودھرنا ختم ہوسکتاہے۔ دیر آئے پر درست آئے کے مترادف آپ کو سراج الحق کی بات سے اتفاق کرناپڑااور آپ کو یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ سراج الحق اپنے لیے نہیں بلکہ ملکی مفاد میں وکٹ کے دونوں طرف کھیلے ۔