شاہینوں کا شاہین ،ہمارااقبال

Published on November 9, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 334)      No Comments

aqeel-21
کالمسٹ لوگ ہر تاریخی دن کے حوالے سے کالم لکھتے رہتے ہیں کوئی اس دن کی اہمیت بیان کرتا ہے تو کوئی اس کی مخالفت پر لکھتا ہے ۔ مگر آج میں جس شخصیت پر لکھا رہا ہوں وہ قیام پاکستان کی صف اول کی شخصیت ہے ۔ جس انتھک محنت و کوشش سے یہ پاکستان معرض وجود میں آیا ۔میں آج اپنا قلم اس شخص کے نام کررہا ہوں جو ہمارے دلوں پر راج کررہا ہے ۔ کبھی سیاست کے پختہ اصولوں سے تو کبھی شعر وشاعری کے ذریعے۔
علامہ محمداقبال 9نومبر کو پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤاجداد کا تعلق کشمیر سے تھامگر آپ لوگ ہجرت کرکے سیالکوٹ آگئے تھے۔ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے حاصل کی۔ ایف اے مرے کالج اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ایم اے فلسفہ کا امتحان بھی گورنمنٹ کالج سے پاس کیااور اس کے بعد اسی کالج میں بطور پروفیسر پڑھانا شروع کردیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور وہاں سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری جرمنی سے حاصل کی۔ لندن میں علامہ اقبال نے عربی کا مضمون بھی پڑھایا۔
انیس سو آٹھ میں دیارغیر سے واپسی ہوئی اور اپنے ملک میں آکر وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا۔ 1934میں شعر وشاعری شروع کردی۔ علامہ اقبال اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے مسلمانوں کو جگایااور غلامی کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے عوام کو اکسایا۔اس وقت جب مسلمان غلامی کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے ۔ایک طرف انگریز ان پر ظلم ڈھاتے تو دوسری جانب ہندؤوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ان حالات میں علامہ اقبال روشنی کی کرن بن کر سامنے آئے اور مسلما نوں کی اصلاح کا بیڑااٹھایا۔
آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کا ضمیر جھنجھوڑا۔ علامہ اقبال کی شاعری بہت پُر اثر تھی۔ مسلمانوں کو ان کا فرض یاد رکھنے اور جوش ولوالہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جیسے آپ نے اپنے اس شعر میں سب کچھ واضح کردیا
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اس طرح کے شعروں نے نہ صرف مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا بلکہ ارادوں میں اور پختگی پیدا کردی۔آپ سیاست میں بھی حصہ لیتے تھے۔ 1930میں انہوں نے خطبہ الہ آباد میں ایک جلسے کی صدارت کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا ۔ آپ کی اعلیٰ سوچ کی وجہ سے آپ کو مفکر پاکستان کا نام دیا گیا۔ آپ مسلمانوں کے لیے ایک چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں جو خود تو جل جاتا ہے مگر دوسروں کو اپنی روشنی دیتا ہے۔
یہ عظیم شخصیت ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی اعلیٰ نمونہ تھے۔ اسی لیے 1910میں حکومت برطانیہ نے آپ کو ’’سر‘‘ کا خطاب دیااور قوم کی شاعری کے ذریعے خدمت کے سلسلے میں آپ کو شاعر مشرق کانام بھی دیا گیا۔ آپ نے بہت کتابیں لکھیں۔ بچوں کے لیے نظمیں لکھیں۔ آپ کی کتابوں میں پیام مشرق، بانگ درا، بال جبریل، جاویدنامہ اور اسرار خودی شامل ہیں۔
حکیم الامت،مصورپاکستان ،تصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے یوم ولادت پران کے کارناموں،خدمات اور عظمتوں کا مکمل احاطہ کرناشاید مجھ جیسے کم علم آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ آپ کے عظیم کارنامو ں سے تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں۔ آپ کے ذکر کے بغیر نہ تو پاکستان مکمل ہوتا ہے اور نہ تاریخ۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ ایران،ترکی،ہندوستان،وسط ایشیا ،الغرض عرب وعجم سارا علامہ کا ممنون احسان ہے کہ انھوں نے شاعری کومحض تذکرہ محبوب اور حسن وعشق سے نکال کر ایک مقصد بخشا۔مسلمانان برصغیر کے اندر ایک نئی روح پھونکی۔ خودی کا درس دے کراغیار کی غلامی سے نکلنے کا سبق سکھایا۔ شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کے کئی کتابوں کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی، چینی ، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک کے لوگ بھی متعارف ہیں۔ بلا مبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں
علامہ اقبال وہ شاعر ہیں جنہوں نے بڑے ، چھوٹے ، جوان، بزرگ اور بچوں کے لیے شاعری کی۔آپ نے ساری زندگی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا۔ جس کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہونے لگی پھر یہ چراغ ہوا کے دوش پر ٹمٹمانے لگااور آخر کار 21اپریل 1938کوہمیں جاگتا چھوڑ کر خود ابدی نیند سوگیا۔آپ کا مزار بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع ہے۔
اس طرح مسلمان سورج کی طرح روشن شخصیت کی روشنی سے تومحروم ہوگئے لیکن وہ آج بھی ہماری زندگیوں میں اِک روشن کتاب کی طرح موجود ہیں۔ یہ وطن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مفکر پاکستان کون تھے اور کس طرح جدوجہد کرکے انہوں نے ہمیں یہ ملک لیکر دیا تھا۔علامہ اقبال بے شک اس دنیائے فانی سے کوچ کرچکے ہیں مگر ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ شاعری کے ذریعے ہمارے جذبات میں بستے ہیں۔ اپنی تصانیف کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا فرد ہیں۔
علامہ اقبال نے جوپاکستان کا تصور پیش کیا اور جس کی بنیاد قائداعظم نے رکھی اگر ہم آج اس پاکستان کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ کہاں گیا وہ مسلمانی جذبہ جس کے سامنے غیر مسلم جھکتے تھے اور آج غیر مسلموں کے سامنے ہم جھک رہے ہیں ۔ کل تک غیر مسلموں پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی اور آج ہم مسلمان حکومتیں بنا کر بھی غیر مسلموں کی فرمانبرداری کررہے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ جس پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور جس مقصد کے لیے یہ وطن آزاد کرایا۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو ایساپاکستان بنانے کی توفیق دے ۔آمین

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog