بجلی کے بحران میں شدت آ رہی ہے اس کے ساتھ اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔پاکستان میں بجلی کے بحران کی سب سے بڑی وجہ اگر ڈیم بننے میں تاخیر کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ ڈیموں کے کئی فوائد ہوتے ہیں اس سے پانی جمع کر لیا جاتا ہے جو زراعت کے بھی کام آتا ہے پاکستان میں تو ہر سال سیلاب بھی آتے ہیں ان کی روک تھام بھی ہو سکتی ہے جس سے سینکڑوں انسانوں کی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اگر ڈیم بنے ہوتے تو سیلاب سے تباہی مچانے والے پانی کو ڈیموں میں محفوظ کر لیا جاتا ۔اس پر نہ پچھلی،نہ اس سے پچھلی اور نہ ہی یہ موجودہ حکومت کوئی کام کر رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت بجلی کی کمی کا شدت سے سامنا ہے اور ڈیموں سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ویتنام ،چین،امریکہ ،برازیل اور بھارت وغیرہ ڈیموں کی تعمیر پر کثیر رقم خرچ کر رہے ہیں ۔بھارت نے تو گذشتہ چند سالوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر کے اپنے وطن کو توانائی مہیا کر نے کا شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کا یہ کارنامہ پاکستان سے کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ڈیم ملک کے لیے اقتصادی طور پر بھی بہت مفید ہوتے ہیں پاکستان کو اس وقت ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ورنہ آنے والے وقت میں پانی اوربجلی کابحران اتنی شدت اختیار کر لے گا جس کا حل مشکل ترین ہو جائے گا ۔ڈیم صرف بجلی کے لیے نہیں زراعت کے شعبے کے لیے بھی ضروری ہیں ،بجلی تو کوئلہ سے ،ایٹمی توانائی سے اور بھی کئی ذرائع ہیں جن سے بن سکتی ہے مگر زرعی شعبہ کے لیے پانی کا ذخیرہ اور سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے پاکستان میں ڈیموں کی اشدضرورت ہے ۔جب سے ہوش سنبھالا ہے کالا باغ ڈیم پر سیاست دیکھ رہے ہیں اگر پاکستانی میڈیا اس بارے میں مہم چلائے اور عوام کو شعور دے تو ہو سکتا ہے اس پر سیاست کرنے والے ایسا نہ کر سکیں ۔اس کے علاوہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ایسے مسائل کو حل کرے ۔ایسے سیاست دان جو کالاباغ ڈیم بنانے کے مخالف ہیں ان سے ڈائیلاگ کیا جائے ،عوام میں اس بارے میں شعور و آگاہی مہم کی چلائی جائے ،اور پھر ملکی مفاد میں مشترکہ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
پاکستان میں بجلی 35 فیصد تیل سے پیدا کی جاتی ہے یہ بجلی بنانے کا ایک مہنگا ترین طریقہ ہے۔ دوسرے نمبر پر 30 فیصد پانی سے اور یہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے۔ اس پر پوری توجہ نہیں دی جارہی اس کے بعد 29 فیصد گیس سے پیدا کی جاتی ہے۔ اللہ نے پاکستان کو گیس کی نعمت سے نوازا ہے ۔لیکن اس سے بھی پاکستانی حکومت زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکی ایک اور سستی بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے لیکن اس پر بھی کسی بھی حکومت سے خاطر خواہ توجہ نہ دی وہ ہے نیوکلئیر یا ایٹمی توانائی کا منصوبہ ہے اس کے ذریعہ صرف 6 تا 7 فیصد پیدا کی جا رہی ہے آخر ایٹمی بجلی گھر کیوں تعمیر نہیں کیے جاتے اس سے بہت جلد توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ہمارے ایٹمی سائنس دان اورمحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کو موقع دیا جائے تو وہ 90 دن میں بجلی کا بحران ختم کر سکتے ہیں اور ملک کو سستی بجلی فراہم کر سکتے ہیں ۔اس بارے بھی ہماری حکومتیں خاموشی کا شکار ر ہی ہیں ۔نہ جانے ان کی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں جو ایسے عوامی مسائل و مشکلات کے حل کیلیے ان معاملات پرتوجہ نہیں دیتیں ۔صاف اور سیدھی بات ہے کہ ملک کو اس وقت ڈیموں کی ضرورت ہے بجلی کے علاوہ زرعی شعبہ میں بھی خود کفالت کے لیے اور کالا باغ ڈیم کوترجیح دے کر مزید چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں اس سے نہری نظام بھی رواں دواں رہے گا اور بجلی بھی سستی ملے گی اس کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔اس وقت تو پارلیمنٹ کی ساری جماعتیں مسلم لیگ ن (حکومت )کے ساتھ کھڑی ہیں ۔بجلی بحرا ن کا اصل سبب ایک اور بھی ہے جس بارے حکومت اگر فوری عمل کرے تو بجلی کا 20 فیصد بحران کم ہو سکتا ہے اور وہ ہے بجلی کی چوری ،لائن لاسزز کا خاتمہ ،اور جن کو فری بجلی دی جاری ہے اس کا خاتمہ یعنی بجلی بنانے والا سسٹم ،بجلی گھروں تک پہچانے والا سسٹم ،اور واپڈا کی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کر دیا جائے اس سے کرپشن بھی کم ہو جائے گی ،چوری رک جائے گی۔اصل میں بجلی کا سارا سسٹم ہی خراب ہے اس کی اورہالنگ ہونی ضروری ہے اگر اسی سسٹم کے تحت چین سے ہونے والے معاہدے کے تحت تیار ہونے والی بجلی بھی فراہم کی گئی تو بھی کوئی فائدہ عوام کو نہ ہو گا ۔
گزشتہ روز وزیر اعظم نواز شریف نے توانائی اجلاس میں کہا کہ اگلے چند دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کی جائے گی۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے اور دیگر اشیاء کی قیمت میں بھی کمی ہو گی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بھی ہمارے ہی دور حکومت میں ہو گا۔ جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ چین ہمارا دوست ملک جس سے ہم نے19تاریخی معاہدے کیے ہیں جن سے ہمارے خطے کی تقدیر بدل جائیگی۔ حکومت عوام الناس کی مشکلات اور پریشانیاں ختم کرنے کیلئے ترجیحی اقدامات کر رہی ہے۔ اور توانائی بحران ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ دوسری طرف چین سے حالیہ ہونے والے معاہدہ جات بھی ایک سوالیہ نشان ہیں کہ ان پر عمل درآمد کب ہو گا کیونکہ موجودہ حکومت کی عمل کی رفتار بہت سست ہے ،اس سے کتنی بجلی پیدا کی جائے گی ،اور اس کا فی یونٹ ریٹ کتنا ہو گا وغیرہ ۔ریٹ سے یاد آیا ہمارے ہاں تو جس کے گھر میں ایک بلب ہو اس کو بھی 20ہزارکا بل آجاتا ہے اصل کام اس سسٹم کو درست کرنے کا ہے ،ورنہ جتنے مرضی معاہدے ہوجائیں عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچیں گے ۔ہاں عوام کو چند سال مزید نعروں پر خوابوں پر ،امیدوں پر بے وقوف بنایا جا سکتا ہے ۔اس سسٹم میں عوام کو 70 ارب روپے کے اضافی بل آ جاتے ہیں جن کی وجہ ہمارے وزیر یو پی ایس قرار دیتے ہیں۔ بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے اب اس پر مزید کیا بات کریں ۔خلاصہ یہ ہے کہ کوئلہ سے بھی بجلی پیدا کی جائے اگر سستی تیار ہو سکتی ہے تو پھر اپنے ملک سے ہی کوئلہ نکالا جائے۔ کہیں اور سے منگواکر ایسا نہ کیا جائے ۔ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کی جائے اس سے جلد بحران کا خاتمہ ممکن ہے ۔ڈیم لازمی تعمیر کیے جائیں اس سے سیلاب کا سدباب ،بجلی بحران کا خاتمہ،اور زراعت کے شعبہ میں ترقی ممکن ہے اور وقت کی سب سے اہم ضرورت بجلی کے سسٹم میں اورہالنگ ،کڑا احتساب ،کرپشن کا خاتمہ ،چوری اور مفت خوری کا خاتمہ کیا جائے ۔ان چند باتوں پر عمل کرنے سے جلد از جلد بجلی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکتاہے ۔