پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر پی ایم ایل این ناروے کے صدر رانا بختیار احمد سے خصوصی گفتگو

Published on November 26, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 1,222)      No Comments

تحریر: لالہ ثناء اللہ بھٹی

10593209_10203030563058710_2013424143029622706_nگذشتہ روز ناروے کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت رانا بختیار احمد سے گفتگو ہوئی۔ رانا بختیار احمد’نارو راجپوت‘ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے وقت رانا بختیار احمد کے آباؤ اجداد بھارت کے ضلع ہوشیارپور کے گاؤں سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے۔ رانا بختیار احمد کے والدِ محترم رانا محمد شریف بطور تحصیلدار ریٹائرڈ ہوئے۔ رانا بختیار احمد کے والد اور خاندان کے دیگر بزرگ حضرات نے تحریکِ قیامِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ضلع ہوشیارپور کی مسلم آبادی کی اکثریت کو بحفاظت پاکستان کے علاقے میں پہنچانے میں رانا بختیار احمد کے والد بزرگوار رانا محمد شریف نے انمول خدمات سرانجام دیں۔ 

رانا بختیار احمد 1993ء میں ناروے میں اہلِ خانہ سمیت آئے تھے اور تاحال ناروے کے شہر دریمن میں قیام پذیر ہیں ۔ رانا بختیار گذشتہ دس سال سے ناروے کے سرکاری محکمہ تعلیم میں اچھی پوسٹ پر تعینات ہیں اور اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں رانا بختیار نے بتایا کہ ان کا شمار مسلم لیگ ن کے بانی ورکرز میں ہوتا ہے اور زمانہء طالبعلمی میں مسلم لیگ کے سٹوڈنٹ ونگ ایم ایس ایف کے سرکردہ لیڈر بھی رہے ہیں اور اب ناروے میں پاکستان کی موجودہ حکمراں سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔جب رانا بختیار سے مسلم لیگ کو سپورٹ کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ مسلم لیگ پاکستان کی بانی جماعت ہے اس لیے بطور محبِ وطن پاکستانی، رانا بختیار احمد مسلم لیگ ن سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں اور مسلم لیگ ن سے دلی لگاؤ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن کا دورِ حکومت آیا ہے، پاکستان نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں ہی پاکستان ایٹمی طاقت بنا ۔ رانا بختیار نے بتایا کہ مسلم لیگ ن سے جذباتی لگاؤ اپنی جگہ ،لیکن ہم سب سے پہلے پاکستان کی ترقی و سلامتی کے خواہاں ہیں۔ اگر کوئی دوسری سیاسی پارٹی بھی پاکستان کی خدمت کرتی ہے تو ہم اسکے اقدامات کی قدر کرتے ہیں۔ رانا بختیار نے بتایا کہ چند ماہ قبل ناروے میں پی ٹی آئی کے عہدیداران نے ڈاکٹر علوی کی قیادت میں آئی ڈی پیز کے لیے فنڈ ریزنگ مہم کا آغاز کیا جس میں بطور صدر مسلم لیگ ن ناروے، رانا بختیار احمد نے پارٹی کے دیگر عہدیداران کے وفد کے ساتھ شرکت کی اور اپنی ذاتیکاوشوں سے ایک خطیر رقم صوبہ خیبر پختونخواہ کے آئی ڈی پیز کے لیے عطیہ کی۔ 

sdfgghnرانا بختیار نے بتایا کہ اگر دیکھا جائے تو جب بھی مسلم لیگ ن کا دورِ حکومت آیا ہے، پاکستان نے ترقی کی منازل طے کی ہیں ۔ سرکاری ملازمین و بیروزگار حضرات کے لیے بہت ساری اسکیمز کا اجراء کیا گیا ۔ ہونہار و قابل اسٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپس فراہم کیے گئے۔ مسلم لیگ ن کے موجودہ دورِ حکومت میں بے روزگارحضرات کے لیے حکومت نے یلو کیب ٹیکسیوں کی اسکیم شروع کی ، آسان شرائط پر یوتھ لون اسکیم کا آغاز کیا اور اسے کامیابی سے کرپشن کے بغیر آگے بڑھایا اور بے روزگار نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے جاری کئے گئے اور یہ اسکیم کامیابی سے جاری ہے اور عوام اس اسکیم سے تاحال استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ وزیرِ اعظم پاکستان میاں نواز شریف پاکستان میں سے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے بہت سارے پراجیکٹس کا آغاز کرہے ہیں ۔ رانا بختیار احمد نے کہا کہ اس وقت ملک میں دھرنوں کی ضرورت نہیں ہے، مسلم لیگ ن کو اسکی حکومتی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جائے اور اگر عوام محسوس کریں کہ مسلم لیگ ن کا دورِ حکومت اچھا نہیں تھا تو عوام کے پاس ووٹ کا اختیار ہے، عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے اگلی حکومتی مدت کے لیے کسی دوسری سیاسی جماعت کو حکومت کا موقع دیدیں۔ لیکن فی الوقت پاکستان کو ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم لیگ ن کو اسکا دورِ حکومت مکمل کرنے دیا جائے اور حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے حکومتی اقدامات کا جائزہ لیتے ہوئے عوام جس کو چاہے منتخب کریں اور جسے چاہے نکال باہر کریں، کیونکہ فیصلہ عوام کا ہے اور مسلم لیگ ن عوامی فیصلے کا حترام کرتی ہے اور جمہوریت و آئین کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔

640f92e99ad5c0a5d3b22e84c1786961fcffbdcb7e37b1bdb16014be7e6967baرانا بختیار احمد سے موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے موجودہ سیاسی بحران کو دشمنانِ پاکستان کا ایجنڈا قرار دیا۔ دھرنوں میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے، آکسفورڈ کے پڑھے لکھے لیڈران ایسی ایسی بے ہودہ باتیں کرتے ہیں ، جو ہم نے کبھی نہیں سنیں ۔ الزام تراشی و بہتان کشی ان کا شیوہ بن چکی ہے۔ اب وہ لوگ سیاست کی باتیں کرتے ہیں جنہیں سیاست کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ رانا بختیا ر نے بتایا کہ میں نے وہ سیاسی دور بھی دیکھا ہے کہ جب نوابزادہ نصر اللہ، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مودودی، سردار بلخ شیر مزاری اور بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دان بھی تھے، جو آپس میں اختلافِ رائے رکھنے کے باوجود بھی ایسی نازیبا اور گھٹیا زبان کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ عمران خان واقعی نیا پاکستان بنا رہا ہے جہاں اخلاقیات کا جنازا نکالا جائے گا، بے ہودہ زبان استعمال کی جائے گی، بڑوں کی عزت نہیں رہے گی۔ پاکستان میں واقعی تبدیلی کی لہر دوڑ گئی ہے اور ان دھرنوں کی آڑ میں ہماری نئی نسل ایسی ایسی حرکات کررہی ہے کہ جنہیں بیان کرنا ناممکن ہے۔ فیشن کے نام ہر فحاشی کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔ عمران خان یورپ اور امریکہ کی جمہوریت سے کافی متاثر نظر آتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جمہوریت کو سمجھتا ہے، لیکن کوئی اس سے پوچھے کہ کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے جو وہ پاکستان میں برپا کرنا چاہتا ہے؟ کیا یورپ میں ایسی جمہوریت ہے، جسے وہ پاکستان میں متعارف کروانا چاہتا ہے؟ کیا یورپ میں کسی کو اس طرح دھرنے دینے اور حکومتی اعلیٰ عہدیداران کے متعلق نازیبا کلمات و گالیوں کے استعمال کی اجازت ہے؟ رانا بختیار نے موجودہ سیاسی صورتحال کو پاکستان کے خلاف بھارتی و یہودی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دھرنے والے پاکستان کی سلامتی کے دشمن ہیں۔ جب پاکستان کا ایک حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ریاست (بنگلہ دیش ) بن گیا تو بعد میں پتہ چلا کہ اسکے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور کون سے عوامل کارفرما تھے ، اور موجودہ وقت بھی پاکستان کو بالکل ویسی ہی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ پاکستان میں موجودہ دانشور حضرات سمجھتے ہیں کہ ان دھرنوں کا کیا مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے رشید جیسے بکاؤ سیاستدانوں کو آگے لگایا ہوا جسے وہ کل تک اپنا چپڑاسی رکھنے کو تیار نہیں تھا، آج اسی کے گن گا رہا ہے اور اسے ہر جگہ اپنے ساتھ کھڑا کرہا ہے اور پاکستان کی نوجوان نسل کو بہکا کر، نئے پاکستان کا لالچ دے کرنجانے اپنے کن مذموم عزائم کی تسکین کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن اللہ کی مدد سے پاکستان تا قیامت سلامت رہے گا اور وطنِ عزیز کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ عمران خان منافقت کی سیاست کررہا ہے اور ماضی میں بھی منافقانہ سیاست نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور اب تو ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے پاکستان شیطان صفت منافق سیاستدانوں سے بچائے۔ میاں نواز شریف نے عمران خان کو شوکت خانم ہسپتال کے لیے پلاٹ دیا، طاہر القادری کو ماڈل ٹاؤن میں پلاٹ دیا جس پہ آج منہاج القرآن کا سیکریٹیریٹ قائم ہے۔ رانا بختیار نے بتایا کہ جس دن سے انہوں نے مسلم لیگ ن ناروے کے صدر کے طور پر ذمہ داریاں اٹھائی ہیں، انہوں نے نوجوانوں کو مسلم لیگ ن کے لیے فعال کیا ہے اور ان میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ رانا بختیار نے بتایا کہ ان کے سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے ناروے میں مسلم لیگ ن کے ورکروں میں جان ڈال دی ہے اور اسے بہت زیادہ متحرک کیا ہے۔پاکستام مسلم لیگ ن ناروے کے میڈیا سیل کا قیام عمل میں لانے کے لیے حکمتِ عملی کی جارہی ہے ۔

10592881_10202683726428011_2103803499351394951_nرانا بختیار احمد ناروے میں راجپوت برادری کی سب سے بڑی جماعت راجپوت یوتھ ونگ کی صدارت کا عہدہ بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ برادری کے حوالے بات کرتے ہوئے رانا بختیار احمد نے کہا کہ میرا مقصد ہرگز برادری ازم کو پرموٹ کرنا نہیں ہے۔ ہم سب پاکستانی ایک برادری کی مثل ہیں۔ ناروے میں دیگر برادیوں کی بھی جماعتیں ویلفیئر کے لیے کام کررہی ہیں اور راجپوت یوتھ ونگ ناروے کے قیام کے پیچھے کارفرما اصل مقصد یہی ہے کہ اپنی راجپوت برادری اور ناروے میں مقیم دیگر پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے کام کیے جائیں۔ اگر کسی بھائی کو ناروے میں نوکری یا رہائش کا مسئلہ ہے تو وہ ہم سے رابطہ کرسکتا ہے۔ برادری بیس پہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی پاکستانی ثقافت و تہذیب کو ناروے میں زندہ رکھ سکیں اور اسلامی و پاکستانی ثقافتی شعار کے مطابق اپنی نئی نسل کی تربیت کرسکیں۔ بچوں اور بچیوں کے رشتے ڈھونڈنے میں آسانی ہو اور ان میں حائل رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ برادری کو اکٹھا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی جس حد تک ممکن ہوسکے، مدد کریں اور دکھ درد کے وقت ہم سب ایک جگہ اکٹھے ہوں اور اپنے بھائیوں کی تکالیف کا ازالہ کیا جاسکے۔

1234033_10200717322469141_555390172_nرانا بختیار نے ہم وطنوں کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے جب بھی کوئی سیاستدان یا کوئی اعلیٰ شخصیت بیرون ملک جائے تو اسے کسی خاص سیاسی جماعت کا پرچار کرنے کی بجائے پاکستان کا پرچار کرنا چاہئے۔ پی ٹی آئی ناروے کی جانب سے اوسلو میں قائم پاکستانی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کا واقعہ سناتے ہوئے رانا بختیار نے بتایا کہ ناروے میں ان لوگوں کا مذاق اڑایا گیاکیونکہ احتجاج میں شریک لوگوں کی اس احمقانہ حرکت کی وجہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئے ہے۔ اختلافِ رائے رکھنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے لیکن اختلافِ رائے رکھنے کے باوجود وطنِ عزیز پاکستان کے وقار کا خیال رکھنا بھی ہم سب پاکستانیوں پر فرض ہے۔ ہمیں کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے پاکستان کی عزت پر حرف آئے اور دوسری قوموں کے سامنے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو۔ یہ وطن ہم نے بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اور پاکستان کی سلامتی ہی ہم پاکستانیوں کی سلامتی کی ضامن ہے۔ ہمیں پاکستان کی عزت اپنی جان و مال سے بھی بڑھ کر عزیز ہونی چاہیے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes