شنیدہے کہ آجکل قاف لیگ والے چودھری پرویزالٰہی نے علامہ طاہرالقادری سے مایوس ہوکر طبلے سارنگی پر ’’راگ ملہار‘‘سیکھنا شروع کر دیاہے تاکہ جب اُستاد پرویزمشرف کی سنگت نصیب ہو تو اُنکی تان میں تان ملاسکیں ۔چودھری برادران نے توعلامہ قادری کی ’’مُریدی‘‘اِس لیے اختیارکی تھی کہ ایک دفعہ پھر اقتدارکا نشہ چکھ سکیں لیکن علامہ بیچ منجدھارچھوڑکر کھسک لیے ۔پرویزالٰہی صاحب سپیکر بھی رہ چکے ،وزیرِاعلیٰ اور ڈپٹی پرائم منسٹربھی جبکہ چودھری شجاعت صاحب تو بقلم خود 90 روزہ وزیرِاعظم بھی رہے اِس لیے اقتدار کے شب وروز اُنہیں بے کَل کیے رکھتے ہیں۔اقتدار کا نشہ ہی ایساہے کہ ’’چھٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی‘‘۔اُدھر شیخ رشید بھی آٹھ مرتبہ وزیرِباتدبیر رہ چکے اور دَورِوزارت کی سہانی یادیں اُن کے دِل میں بھی ’’یوںیوں‘‘کرتی رہتی ہیں۔شیخ صاحب نے خاں صاحب کی ’’چوکیداری‘‘قبول کرلی اور چودھری برادران نے علامہ صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کردیا لیکن علامہ صاحب صحنِ چمن میں بہارِ اقتدار کی سُن گُن نہ پاکر ’’پھُر‘‘کیا ہوئے گویا چودھری برادران کو ’’سیاسی یتیم‘‘ کرگئے۔ چاروناچار چودھریوں نے اپنے سابق مربی ومحسن پرویزمشرف سے رجوع کرلیا لیکن شیخ صاحب تاحال چوکیداری کا فریضہ بطریقِ احسن سرانجام دے رہے ہیں ۔وجہ یہ کہ خاں صاحب ’’مردِمیدان‘‘نکلے ۔وہ تاحال ڈٹے ہوئے ہیں اور اب تو اُنہیں کنٹینر کے بغیر چین ہی نہیں آتا ۔اُنہوں نے خودہی فرمایا کہ وہ سوچتے ہیں کہ اگر دھرنا ختم ہوگیا تو پھر اُنکی شامیں کیسے گزریں گی ؟۔گویا
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملی بھی تو مَر جائیں گے
ہم نے تو پہلے ہی لکھ دیاتھا کہ خاں صاحب تو ’’ویہلے‘‘ہیں اور دھرنوں میں اُنکا جی لگ گیاہے اِس لیے ڈی سے زیڈ تک پلان آتے رہیں گے اور حکومت اُنکے ہر یوٹَرن سے ’’مستفید‘‘ ہوتی رہے گی ۔ویسے اب کی باراُنہوں نے جو یوٹَرن لیاہے وہ ملک وقوم کے لیے بہترہے اور حکومت کے لیے بھی ۔اِس میں خاں صاحب کی سیاسی فہم وفراست کی جھلک بھی نمایاں ہے۔یوں لگتاہے کہ وہ بڑی تیزی سے ’’سیاسی بلوغت‘‘کی طرف گامزن ہیں ۔اب وہ باربار فرمارہے ہیں کہ حکومت مذاکرات کرے اور سپریم کورٹ کا تحقیقاتی کمیشن بنائے ۔لیکن دوسری طرف اب حکومت ’’نَخرے‘‘دکھا رہی ہے ۔پرویزرشیدصاحب نے تو مذاکرات سے ویسے ہی صاف انکار کردیا تھا،چودھری نثار کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات کے لیے تیارہیں اور اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ جب وزیرِاعظم لندن سے واپس آئیں گے تو اُن سے مشورہ کرکے مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے گا لیکن وزیرِاعظم صاحب تو لندن میں ڈیوڈکیمرون کے ’’کھَد،پائے‘‘ کھانے میں مصروف ہیں ۔پتہ نہیں اُنہیں کب فُرصت ملے گی ۔اب اسحاق ڈارصاحب نے ایک ڈھیلاڈھالابیان داغ دیاہے کہ حکومت اتوار کو مذاکرات کے لیے تیارہے اِس لیے تحریکِ انصاف فیصل آباد کے احتجاج کا اعلان واپس لے لیکن خاں صاحب نے صاف کہہ دیاکہ جتنی دیر تک کمیشن قائم نہیں ہوتا اُتنی دیر تک احتجاج جاری رہے گا ۔اکابرینِ تحریکِ انصاف کہتے ہیں کہ اُنہیں مذاکرات کی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ۔اِس لیے کہا جا سکتاہے کہ اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے اور عمران خاں ببانگِ دہل کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں‘‘۔سیاسی جرگہ کے رُکن رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے میموگیٹ سکینڈل پر تو فوراََ کمیشن بنا دیاتھا اب الیکشن دھاندلی پر کمیشن کیوں نہیں بنایا جارہا ؟۔اطلاعاََ ارض ہے کہ میموگیٹ کا تعلق الیکشن سے نہیں تھا اِس لیے کمیشن بن گیا لیکن یہاں آرٹیکل 225 سدِّ راہ ہے جس کے مطابق صرف الیکشن ٹربیونل ہی دھاندلی کیسز کی سماعت کر سکتاہے دوسری کوئی عدالت نہیں ۔ایسا کرنے کے لیے آرٹیکل 225 میں ترمیم کرنا ہوگی ۔تحریکِ انصاف سے تمامتر اختلافات کے باوجود کہا جا سکتاہے کہ اب تحریکِ انصاف راہِ راست پرہے اور حکومت الجھاؤ کا شکار ہے اور کَل کلاں کپتان صاحب یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ
عجز ونیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے
اُدھر جنابِ آصف زرداری اُس وقت تک تو ’’چَسکے‘‘لیتے رہے جب تک تحریکِ انصاف اور نوازلیگ باہم دست وگریباں تھیں لیکن جونہی اُنہوں نے محسوس کیا کہ معاملات الجھاؤ کی بجائے سلجھاؤ کی طرف گامزن ہیں توبلاول زرداری کو ’’نُکرے‘‘لگا کر وہ خود لنگوٹ کَس کر سیاسی اکھاڑے میں کودپڑے ۔ہم نے تو یہ محاورہ سُنا اور پڑھا تھا کہ ’’نو سو چوہے کھا کے بِلّی حج کو چلی ‘‘ لیکن زرداری صاحب توچھ سو ’’چِڑے‘‘کھا کر میدان میں اُترے ہیں ۔پہلوانوں کے شہرگوجرانوالہ میں اُنکے لیے بکروں کے 250 پائے اور نَلی ،600 چِڑے ، 600 بٹیرے اور دریائے چناب کی مچھلی کا اہتمام کیاگیا ۔شنید ہے کہ گجرانوالے کی ساری چڑیاں ہڑتال پرہیں اور شدید احتجاج کرتے ہوئے نَوحہ کناں ہیں کہ وہ بیوہ ہوگئی ہیں کیونکہ اُنکے’’ خاوند‘‘ زرداری صاحب ڈکار گئے اور زندہ بچ جانے والے مارے خوف کے ’’پھُر‘‘ہوگئے ۔خبری نے یہ بھی بتایاہے کہ چڑیوں نے تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے گوجرانوالے کے پہلوانوں کے اکھاڑوں میں دھرنا دینے کی تیاری مکمل کرلی ہے ۔فی الحال 12 اکھاڑوں میں دھرنا دینے کا پروگرام ہے جسے بعد ازاں پورے گوجرانوالے میں پھیلا دیاجائے گا۔بٹیروں کی موئنث کا مجھے علم نہیں ،شاید ’’بٹیرنیاں‘‘ہوگا لیکن اُنکی طرف سے ابھی کسی احتجاجی تحریک کا اعلان نہیں ہوا۔ہوسکتا ہے کہ وہ بھی اُسی تحقیقاتی کمیشن کے انتظار میں ہوں جو ’’چِڑوں‘‘ کی بیوگان کے لیے تشکیل دیا جائیگا ۔ کارکنوں سے خطاب کے دَوران زرداری صاحب سے باربار یہ سوال کیا جاتارہا کہ پیپلزپارٹی کے ’’وارثِ اعلیٰ‘‘بلاول زرداری کہاں ہیں ؟۔زچ ہوکر زرداری صاحب نے کہہ دیا ’’ بلاول کے بارے میں خاندان فیصلہ کرے گا کہ اُسے کب میدان میں اتارناہے ۔کراچی کے جلسے میں اُس نے 100 بندوں کو ناراض کردیا ۔اگر اُسے پنجاب میں لے آتا تو پتہ نہیں اور کتنے بندوں کو ناراض کردیتا ‘‘۔یہ خاندانِ زرداریہ کا گھریلومعاملہ ہے جس میں ہم دخیل نہیں لیکن ہمیں اتنا تو بتا دیاجائے کہ آخروہ ہیں کہاں کیونکہ اب نہ اُن کا کوئی بیان آتاہے اور نہ ہی وہ ٹویٹ کرتے ہیں ۔کیا وہ نظربند ہیں اور اُن کی زباں بندی بھی کردی گئی ہے ؟۔