آئین کسی مملکت کا وہ اساسی قانون ہوتا ہے جو اس مملکت کے نظریات اور اسکے مختلف شعبوں کے درمیان فرائض اور اختیارات کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ زمانہء قدیم میں آئین کا اہم کام اس بات کا تعین کرنا تھا کہ ملک پر کس کی حکومت قائم ہوگی۔ کسی فرد کو ملک کا سیاسی اختیار تفویض کرنے کا معیار اس ملک کے معاشرتی نظام کے جذباتی رویوں اور طرزِ عمل کی عکاسی کرتا تھا۔ آئین کی خواہ کوئی بھی وضع ہو، وہ عوام کے اخلاق پر اثرانداز ہوتی تھی۔ اگرچہ جدید دساتیر زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں لیکن کسی ریاست میں حکومتی اختیار حاصل کرنے اور اسے بروئے کار لانے والے قوائدو قوانین عام طور پر معاشرے کے تصورات و اقدار اور اساسی عقائد و نظریات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آئینی شفارشات کی کمیٹی کی طرف سے آئینی مسودہ 2 فروری 1973ء کو منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ مختلف مراحل سے گزار کر اس آئینی مسودے کو 10اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی کی طرف سے منظوری حاصل ہوئی اور 12اپریل کو صدرِ مملکت جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس پر دستخط کردیئے۔لیکن سینیٹ کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے اس منظور شدہ آئین کو فوری طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ آئین کے نفاذ کے لیے 14اگست 1973ء کا دن مقرر کیا گیا۔ اسی تاریخ کو آئین میں ’آئین کے آغاز کا دن‘ بھی قرار دیا گیا۔ 14اگست 1973ء کو نیا آئین نافذ کردیا گیا اور مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا مفتی محمود اور مولانا ظفر احمد انصاری نے متفقہ طور پر اس آئین کو اسلامی آئین بھی قرار دیدیا۔ موجودہ دور میں نافذ آئینِ پاکستان کے کل 280آرٹیکلز ہیں۔ ان میں سے پہلے 7آرٹیکلز مملکتِ پاکستان کے متعلق ہیں،آرٹیکل نمبر 8تا آرٹیکل نمبر 39 تک عوام کے بنیادی حقوق اور ان کی حکمتِ عملی کے نمائندہ آرٹیکلز ہیں اور آرٹیکل 40تا آرٹیکل 280بین الاقوامی تعلقات اورطرزِ حکمرانی کے متعلق ہیں۔
گذشتہ ہفتے کی شام اسلام آباد میں بیداری ء فکر فورم میں آئینِ پاکستان و عوامی حقوق کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔بیداری ء فکر فورم کی یہ نشست سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین کی زیرِ صدارت ہوئی۔ ڈاکٹرغلام حسین پاکستان کی آئین ساز کمیٹی کے ممبر بھی رہے اور سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا۔سینئر ماہرِ قانون کلیم شہزاد بھٹی اور سلطانہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم غنی نے مہمانانِ اعزاز کے طور پرشرکت کی۔
اس موقع پر راقم الحروف نے اپنا ایک آرٹیکل پڑھا، جو ’’ آئینِ پاکستان و عوامی حقوق ‘‘ کے عنوان سے وطنِ عزیز کے کئی اخباروں میں بھی پبلش ہوچکا ہے۔قارئین! آئین میں عوامی حقوق کی نمائندہ شقوں کی تعداد کم ہے اور حکمرانی طرزِ عمل کی شقوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اور حکمرانی طرزِ عمل کی نمائندہ شقوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ حلف کیسے اٹھایا جائے گا اور وہ حلف لینے کا اہل کون ہوسکتا ہے؟ تقرریاں کیسے ہوں گی اور برطرفیاں کون کون کرسکتا ہے؟ وغیرہ ۔ اور اسکے مقابلے میں اگر آپ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے آئین کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان ممالک میں نافذآئین کی اکثریتی شقیں عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی سہولت کو تفصیل سے شقوں کی صورت میں واضح کرکے حکمرانوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں ورنہ سزا بھگتنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ مختلف سربراہانِ مملکتِ پاکستان کے ادوار میں آئین میں سترہویں، اٹھارویں اور انیسویں ترامیم ہوئیں۔ ترمیم کردہ تمام آرٹیکلز وزیرِ اعظم اور صدر کے اختیارات کے گرد گھومتی ہیں۔ گذشتہ ادوارِ حکومت اور موجودہ دورِ حکومت میں سربراہانِ مملکت نے آئین کی ان شقوں کو ہرگز نہیں دیکھا کہ عوام کے کیا حقوق ہیں اور حکمرانوں کے کیا فرائض ہیں۔ حکمرانوں نے صرف ان شقوں میں ترامیم کیں جو ان کے اختیارات کو وسیع کرتی ہیں۔ قارئین کی معلومات کیلئے : آئین میں ترمیم کے لیے ایوانِ زیریں میں دو تہائی اور ایوانِ بالا میں بھاری اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور آئین کی منظوری دینے والے وہی لوگ ہیں جو ہماری ووٹوں کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔
فورم میں آئینِ پاکستان کے ان آرٹیکلز کا خصوصی ذکر کیا گیا جن کو عوامی حقوق کے نمائندہ آرٹیکلز بھی کہا جاتا ہے۔ فورم میں آئین کی شق نمبر 38کو حاضرین کی معلومات کے پڑھا گیا اور اب قارئین کی معلومات کے لیے۔۔
عوامی حقوق کی نمائندہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 38 :
مملکت ؛ (الف) عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے ، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر و ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس ، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کریگی؛ (ب) تمام شہریوں کے لئے ، ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول آرام و فرصت کے ساتھ کام اور مناسب روزی کی سہولتیں مہیا کریگی؛ (ج) پاکستان کی ملازمت میں، یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کریگی؛ (و) ان تمام شہریوں کے لئے جو کمزوری ، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، بنیادی ضروریات زندگی مثلاََ خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کریگی؛ (ہ) پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت ، افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کریگی؛ اور (و) رباء کو جتنی جلدی ممکن ہو، ختم کریگی۔
قارئین ! آپ اندازہ لگائیں کہ کیا واقعی پاکستانی عوام کو وہ حقوق میسر ہیں جو آئین کی 32عوامی حقوق کی نمائندہ شقوں میں وضاحت کے ساتھ لکھے ہیں؟ حکمرانوں کو تو بہرحال وہ تمام حقوق میسر ہیں ہی، بلکہ اس سے بھی کافی۔۔ کافی زیادہ حقوق میسر ہیں جو آئین میں واضح کیے گئے ہیں۔ کہنے کو پاکستان میں جمہوریت قائم ہے، لیکن ہم عوام ہی جانتے ہیں کہ اس جمہوریت کے قیام اور اسکے نفاذ کے دور میں ہم کیسے گزارا کررہے ہیں۔ ہر حکمران، ہر ایم این اے، ہر ایم پی اے ، یہ سب لوگ صرف اپنی کرسی، اپنے اختیارات کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ آئینِ پاکستان سے اس مخصوص طبقے کا تعلق صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کی حد تک ہے اور اس سے بڑھ کر فی الحال تو ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ہم عوام مزید کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن آئین میں موجود عوامی حقوق کی شقوں کے مطابق ہی اگر ہم عوام کو حقوق میسر آجائیں تو ہمارا پاکستان واقعی ہمارے لیے جنت بن جائے۔
نشست کے صدر ڈاکٹر غلام حسین نے ترقی یافتہ ممالک میں سے سویڈن کی مثال دیتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ سویڈن کی حکومت نے اپنے ملک میں سے شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کی خاطر اپنے تمام تر وسائل کو استعمال کیا ۔ سویڈن نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ سویڈن نے Human Development کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ سویڈن کی حکومت نے اپنی توجہ کا مرکز تعلیم، صحت ، مواصلات، انسٹیٹیوٹس اور دیگر انسانی بہتری کے اداروں کو رکھا اور آج سویڈن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صفِ اول پر ہے ۔ آج سویڈن میں سوئی سے لیکر ایٹمی پلانٹ بنانے کی صنعتیں کام کررہی ہیں اور سویڈن کی تیار کردہ مصنوعات کو دنیا بھرمیں بہترین تسلیم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے سویڈن سے کئی گنا زیادہ نعمتوں سے نوازا ہوا ہے لیکن ہمارے حکمران ’’ڈیموکریسی‘‘ کی آڑ میں ’’ڈاکو کریسی‘‘ کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔انہوں نے سیاسی بیداری پیدا کرنے کی غرض سے بتایا کہ پاکستان کو تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ جات میں تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ حکمران ، عوام کو کبھی فائدہ نہیں دے سکتے اور بیداری ء فکر فورم کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کا فائدہ اور نقصان کیا ہے، عوام کا دوست کون اور دشمن کون ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین نے نام نہاد وی آئی پیز کو پاکستانی قوم کے مجرم قرار دیااور 20کروڑ پاکستانی عوام کے مستقبل کی بربادی میں بھی ان نام نہاد وی آئی پیز اور نا اہل حکمرانوں کا ہاتھ ہوگا۔ ہم بھی ڈیموکریسی کو تعریف کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہم پاکستان میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں اور ہم کسی خونی انقلاب کے حامی بھی نہیں ہیں۔ لیکن اگر نام نہاد وی آئی پیز اور نا اہل حکمران پرچی کی طاقت سے پیچھے نہیں ہٹتے توعوام انہیں برچھی کی طاقت سے پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ان ناہل حکمرانوں نے پاکستان عوام کو تباہ کرنے اور لوٹ مار کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور موجودہ ناہل حکمرانوں جیسے ماضی کے بھی نااہل حکمرانوں کی وجہ سے آدھا ملک ہمارے ہاتھ سے چلا گیا ہے۔ اگر پاکستانی عوام کا شعور آج بھی بیدار ہوجائے اور انہیں اپنی ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہوجائے تو ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔ پاکستانی عوام کو اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے بہترین عوامی نمائندوں کو آگے لانا چاہیئے۔ اسکے لیے ضروری ہے کہ عوام کو پہلے ووٹ کی قدر کا پتہ ہونا چاہیئے اور پھر ووٹ کے استعمال کا پتہ ہونا چاہیئے اور پھر اسکا نتیجہ عوام کے سامنے بہترین حکمرانوں کی صورت میں آئے گا۔
ڈائریکٹر کانفلیکٹ مانیٹرنگ سینٹر عبد اللہ خان نے آئین پاکستان میں عوامی حقوق کے موضوع پر بات کرنے کو بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم نے آئینِ پاکستان پر اتفاق کیا اور آئینِ پاکستان میں لکھے گئے عوامی حقوق کے متعلق جاننا اور بات کرنا ہمارا حق اور ہماری ضرورت بھی ہے۔ لیکن پاکستانی قوم میں سے اکثریت کو پتہ ہی نہیں ہے کہ آئینِ پاکستان میں لکھے گئے عوام کے حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں۔ حقوق کا حصول اور فرائض کی ادائیگی کے مجموعے سے ایک آئیڈیل معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور ایک اچھی ریاست بھی بنتی ہے ۔ انہوں نے عوام کے آئینی حقوق کے علاوہ عوام کے آئینی فرائض کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہونا چاہیئے کہ ہمارے فرائض ریاست کے لیے کیا ہیں اور معاشرے کے لیے کیا ہیں۔ لیکن یہ پاکستانی قوم کی بد قسمتی ہے کہ ہمارے سکول کالج کے کسی بھی نصاب میں آئینِ پاکستان کے نکات اور عوام کے حقوق و فرائض کے متعلق آگاہی نہیں دی گئی۔ عبداللہ خان نے طالبان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا اور ثابت کیا کہ پاکستان میں نافذ جمہوریت؛ اسلام کے تابع ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا اور یہ آئینِ پاکستان کا بنیادی آرٹیکل ہے۔ اگر ہماری ساری پارلیمنٹ بھی کسی ایسے نکتے پر متفق ہو کر آئین میں ایسی تبدیلی کرنے کی کوشش کرے جو قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو یا آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہو تو اسے In-Valid قرار دیدیا جائے گا کیونکہ بنیادی طور پر پاکستان کا آئین سپریم ہے، پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے۔ اگر ہماری حکومت اسلامی فیصلے نہیں کرتی تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے۔ یہ ہماری حکومت کی نا اہلی ہوگی۔ پاکستان صرف اسلام کے نام پر بنا ہے اور پاکستان کا آئین ، اسلامی قوانین و اصول و ضوابط کی نمائندگی کرتا ہے۔ عوامی حقوق کے متعلق بات کرتے ہوئے عبد اللہ خان نے کہا کہ ہماری حکومت کا عوام کے ساتھ رویہ دیکھا جائے تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے حکومت عوام کو پاکستانی شہری سمجھنے کی بجائے اپنا کسٹمر سمجھتی ہے۔ اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لیے عبد اللہ خان نے مثال دی کہ جب حکومت کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے تو عوام پر بوجھ ڈال دیتی ہے، مہنگائی میں اضافہ کردیتی ہے۔ بجی ، گیس کے بلوں میں اضافہ کردیتی ہے اور بالکل کسٹمر کی ہی مانند کبھی کبھی عوام کو تھوڑا سا ڈسکاؤنٹ بھی دے دیتی ہے۔ حکومت جب پاکستانی عوام کے وہ حقوق پورے نہیں کررہی تو پھر وہ ٹیکسز کیوں لے رہی ہے؟ دوسرے ممالک کی حکومتیں،عوامی حقوق کی گارنٹی کے ساتھ ہی ٹیکسز لاگو کرتی ہیں۔ آپ بجلی کا بل دیکھیں تو آپ کو عجیب و غریب قسم کے ٹیکسز نظر آئیں گے ، جن میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، فیول ایڈجسٹمنٹ کے اوپر سیلز ٹیکس، اور مزید ٹیکس (Further Tax)شامل ہیں۔ کوئی ہمیں بھی بتائے کہ یہ مزید ٹیکس کیا ہے؟ بیداری فکر فورم کے ہر ممبر کو پاکستان کا آئین پڑھنا چاہیئے اور پاکستان کے آئین میں موجود عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیئے۔ آئینِ پاکستان ہماری ریاست کا بنیادی 143ڈاکومنٹ ہے جس کا ماننا اور تسلیم کرناحکمرانوں اور عوام، ہم سب پہ فرض ہے۔ اگر ہم آئین کو ہی تسلیم نہیں کریں گے تو ہمارے نظریات میں جان ہی نہیں رہے گی ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اسلام آباد میں پیدل چلنے والوں کے حقوق متعارف کروانے والے ڈاکٹر نعیم غنی (چیئرمین سلطانہ فاؤنڈیشن) ، جو کہ بیداری فکر فورم میں مہمانِ اعزاز کی حیثیت سے فورم میں شریک تھے، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم میں سے اکثریت نے آئینِ پاکستان کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ کائنات میں کوئی بھی چیز Nounنہیں ہے، بلکہ Verbہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے دین کو Nounبنا دیا، انسانیت کو Nounبنا دیا، اپنے آئین کو Nounبنا دیا۔ Verbہے عمل کے لیے، اور عمل ہی اسکا ثبوت دیتا ہے۔ (Your Attension Defines Your Intension)۔ کسی بھی فرد یا ریاست کی Attensionاسکے عمل سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اگر نیت ٹھیک ہے تو عمل سے اسکا اظہار ہونا چاہیئے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے حاضرین کو بتایا کہ آئین کی شق 8سے شق39تک عوامی حقوق کی نمائندہ شقیں کہلاتی ہیں۔ اس وقت جو ملکی صورتحال ہے، اسکے پیچھے یقیناِِ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہے۔ معاشرتی بدحالی بھی کسی ایسی غلطی کی عکاس ہے جو حکمرانوں سے سرزد ہورہی ہے۔ پاکستان کے آئین میں چند بنیادی کجیاں موجود ہیں جوبدلتے وقت کی ضروریات کے عین مطابق نہیں ہیں۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے اہم انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ قانون میں کوئی پابندی نہیں ہے کہ تعلیم کے متعلق آرٹیکل 25-Aکی دستوری شق کو لاگو کرنے کے لیے ایک معین مدت ہو۔ بلکہ آئین کی کسی بھی شق پر عمل درآمد کرنے کے لیے کسی بھی معین مدت کاذکر ہی نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے آئین نے عوام کے حقوق کی سفارش کردی لیکن اسکا قانون بننا ابھی باقی ہے۔ قانون وضع کرنے کے لیے ایک پورا طریقہ کار بننا تھاتاکہ آئین پہ عمل ہو۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لیے مثال دی کہ جب کوئی نیا ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے تو اسکے لیے ٹیکسیشن کا پورا نظام بنایا جاتا ہے، کیونکہ جب تک نظام نہ ہو، ٹیکس کی کولیکشن ناممکن ہے۔ بالکل اسی طرح تعلیم کے متعلق آئینی شق پر عمل کرنے کے لیے کوئی نظام نہیں کیا گیا جو کہ پاکستان کے آئین میں بنیادی کمزوری ہے۔ اب پاکستان کی عدالتوں کی مثال لے لیں ۔ کسی عزت مآب جج یا مجسٹریٹ پہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کسی بھی کیس کا فیصلہ ایک معین مدت میں کرے اور بعض کیسز میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتہائی اہمیت کے حامل کیسز کا فیصلہ غیر معینہ مدت کے لیے محفوظ کردیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے حاضرین کو بتایا کہ آئینِ پاکستان میں ’’جمہوریت‘‘ کی تعریف نہیں دی گئی جسکی کمی آج بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ہر حکمران، ہر سیاسی پارٹی کی جمہوریت کی تعریف اور معیار مختلف ہے۔ ہر سیاسی جماعت جمہوریت کے لیے دوسرے ممالک کی مثال دیتی ہے، کوئی سیاسی پارٹی امریکہ کی جمہوریت کی مثال دیتی ہے اور کوئی سیاسی پارٹی برطانوی نظامِ جمہوریت سے متاثر نظر آتی ہے۔ ہمارے پاکستان میں جمہوریت کی کوئی Definitionموجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر نعیم غنی نے جمہوریت کو سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) قرار دیا۔ موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور جہالت، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یورپ میں معاشی و صنعتی انقلاب کے بعد جمہوریت آئی اور پاکستانی حکمران معاشی و صنعتی انقلاب سے پہلے جمہوریت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں آئین و جمہوریت کے نفاذ کے لیے نیا نظام بنانے کی ضرورت ہے۔