چکوال موٹروے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِاعظم میاں نوازشریف نے فرمایا ’’ہم جب بھی ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے لگتے ہیں تو رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں ۔پہلے رخنے ڈالے جاتے تھے اب دھرنے آتے ہیں ‘‘۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایاکہ ’’میرا بھی ایک پلان ’’ڈی‘‘ہے لیکن میں نے ڈویلپمنٹ والا’’ڈی‘‘ سامنے رکھاہے جبکہ دوسروں کا ڈسٹرکشن والاڈی ‘‘۔وزیرِاعظم صاحب نے کاشغر سے گوادر ،کراچی سے لاہور ،اور حویلیاں سے بُرہان تک موٹرویز بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اِس سے معیشت کا پہیہ چلے گا اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوجائے گا ۔ وزیرِاعظم صاحب کافرمان سَرآنکھوں پر لیکن ہم اُن سے دست بستہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں ترقی چاہیے نہ معیشت کا رواں پہیہ کیونکہ یہی تو وہ منصوبے ہیں جو ملک میں افراتفری کا باعث بن رہے ہیں ۔ایک گروہ کے سربراہ کو یہ یقین ہوچلاہے کہ اگر یہ منصوبے کامیاب ہوگئے تو اُسے خوابوں خیالوں میں بھی وزارتِ عظمیٰ نہیں ملے گی اِس لیے وہ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘کے فارمولے پر عمل پیراہیں۔ویسے بھی ایسے منصوبے تو صرف اُن حکومتوں کو زیبا ہیں جو غنڈہ گردی اور دہشت گردی کو جَڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ہمارے حکمران تو اتنے نرم مزاج اور رحمدل ہیں کہ اگر کوئی اُن کے گال پر ایک تھپڑ مارے تو وہ جھٹ سے دوسرا گال آگے کردیتے ہیں ۔رہی پولیس کی بات تووہ تو صرف غرباء اور شرفاء کو’’تَڑیاں‘‘لگانے کے لیے بھرتی کی جاتی ہے یا پھر پروٹوکول کے لیے ۔اگر ایسانہیں تو پھر لاہور میں غنڈہ گردی کا ننگاناچ دیکھنے کے باوجود پولیس کئی کئی فرلانگ پیچھے آرام کیوں فرماتی رہی ؟۔کیا اُنہیں ایسا کرنے کا حکم ’’اوپر‘‘سے آیاتھا یا پھروہ حفظِ ماتقدم کے طورپر ذرا پیچھے ہٹ کر بیٹھی رہی ۔ویسے قصور ’’بیچاری‘‘پولیس کا بھی نہیں کہ اگر ڈنڈاچلائے تو معطل ہونے کا خطرہ اور اگر نہ چلائے تو اُس کے ’’کھُنے سیکنے‘‘والے بہت۔یہ بجاکہ احتجاج ہرپاکستانی کا آئینی حق ہے لیکن یہ آئینی حق اُس وقت ختم ہوجاتاہے جب کسی کی ناک سامنے آجاتی ہے اوراگر احتجاج ’’ناک‘‘ سے آگے نکل جائے توپھر اسے آئینی حق نہیں غنڈہ گردی کہاجاتاہے جس کا قلع قمع کرنا حکمرانوں کا فرضِ منصبی لیکن لاہور کے احتجاج میں حکومتی نمائندے بڑے دردناک اندازمیں عوام کی پریشانیوں کا ذکر توکرتے رہے، غنڈوں کی سرکوبی نہیں۔طوفانِ بَلا گزرجانے کے بعد وزیرِداخلہ چودھری نثارنے فرمایا ’’حَدہوچکی ،لوگوں کو غنڈہ گردی کے ہاتھوںیرغمال نہیں بننے دیں گے‘‘۔ اِس بیان پر ہم تویہی کہہ سکتے ہیں’’بڑی دیرکی مہرباں آتے آتے‘‘۔
لاہورکی ہر شاہراہ تحریکِ انصاف کے غنڈوں کے قبضے میں۔بے بس اور مجبورعوام ’’گوعمران گو ،ہمیں راستہ دو ‘‘اور شیم شیم کے نعرے بلند کرتے رہے لیکن بے سود۔اِس دہشت گردی کے دَوران ایمبولینسز کو بھی راستہ نہ دیاگیا ۔فیروزوالا کا 15 سالہ بچہ ،شاہدرہ کی 17 دِن کی سدرہ ،ایک 16 سالہ لڑکی اور دِل کا ایک مریض ایمبولینسزمیں ہی جان سے گئے ۔ایک مجبورباپ اپنے ایک سالہ بیماربچے کو ہسپتال لے جا رہاتھا کہ تحریکی غنڈوں میں پھنس گیا ۔اُس نے منتیں کیں ،ہاتھ جوڑے لیکن غنڈوں نے اُس کی ایک نہ سنی اور بچہ جان کی بازی ہارگیا ۔میں نے نیوزچینل پر سترہ دِن کی سِدرہ کی لاش دیکھی توخیالوں میں ایساکھوئی کہ زاروقطار روتی چنگیزخاں کی روح سے ملاقات ہوگئی۔میں نے رونے کا سبب پوچھا تواُس نے کہا ’’میں تو سمجھتا تھا کہ وحشت وبربریت میں میرا کوئی ثانی نہیں لیکن پتہ نہیں یہ نیا ’’خاں ‘‘کہاں سے ٹپک پڑا جو مجھے بھی مات دے گیا ‘‘۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’تمہارا آج بھی کوئی ثانی نہیں ‘‘۔تب چنگیزخاں نے دھاڑتے ہوئے کہا ’’میں تواُن لوگوں کی کھوپڑیوں کے مینار بناکر جشن منایا کرتاتھا جو میرے خلاف جنگ کرتے تھے لیکن تمہاراخاں تو بیکسوں ،بے بسوں ،مجبوروں اور مقہوروں کی لاشوں پر لاہورمیں جشن منانے کا اعلان کررہاہے ۔کیا سترہ دِن کی سدرہ اور ایک سال کا بچہ بھی تمہارے خاں کے مخالف تھے جو اُس نے اُنہیں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑدیا؟۔ نہیں ! میں تمہارے خاں کا مقابلہ نہیں کرسکتا‘‘۔ چنگیزخاں کی روح تو غائب ہوگئی لیکن تب سے اب تک میں یہی سوچ رہی ہوں کہ آخرکپتان صاحب کو جابجا نفرتوں کے بیج بونے سے کیا حاصل ہوگا؟۔میڈیا سے عدلیہ اور سیاستدانوں سے عام انسانوں تک خاں صاحب جو نفرت کے بیج بو رہے ہیں ،اُس نفرتوں کی کھیتی کو کاٹنابھی خود عمران خاں کو ہی پڑے گا لیکن تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔ایک وحشی کہتاہے ’’ایسی ہلکی پھلکی موسیقی تو چلتی ہی رہتی ہے ‘‘۔اسی ’’ہلکی پھلکی‘‘موسیقی نے جب اُسکی ’’حویلی‘‘کا گھیراؤ کیا تو تب پتہ چلے گاکہ یہ ہلکی پھلکی موسیقی تھی یا نفرتوں کا الاؤ۔
خاں صاحب اگر یہ سمجھتے ہیں کہ جیونیوزکی ثنامرزا کے آنسو رائیگاں جائیں گے یا امین حفیظ اور خواجہ عامر پر غلیلوں سے چلائی گئی کانچ کی گولیوں کا کچھ اثر نہیں ہوگا تو یہ اُنکی بھول ہے ۔ آج تو خاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ جب جھوٹ بولاجائے گا تو پھر ردِعمل بھی آئے گا لیکن جب کل کلاں’’تحریکِ انتشار‘‘ کے غنڈے مکافاتِ عمل کا شکارہوئے تو یہی یُوٹرن کے ماہرخاں صاحب اُن سے لاتعلقی کااظہار کرنے میں ایک لمحے کی دیر بھی نہیں لگائیں گے ۔میڈیاپرتحریکی غنڈوں کی غُنڈہ گردی پرانصارعباسی نے کہاکہ یہ بے غیرتی ،بے شرمی اور بے حیائی کی انتہاہے ۔تحریکِ انصاف کے لیے اپنے دِل میں بہت سے نرم گوشے رکھنے والے حسن نثاربھی چیخ اُٹھے کہ یہ انتہائی بے غیرتی ہے ۔عاصمہ شیرازی نے کہاکہ اگر خاں صاحب نے میڈیاکی خواتین کے ساتھ ہونے والی بدتمیزی پربھرپور ایکشن نہ لیا تو سارامیڈیا اُنہیں’’بُزدِل خاں‘‘کہنے پر مجبور ہوجائے گا ۔عاصمہ نے یہ بھی کہا کہ تحریکِ انصاف کے جلسوں کی کوریج کرتے ہوئے تحریک کی کئی نوجوان لڑکیوں نے شکایت کی کہ تحریکِ انصاف کے لڑکے اُنکے ساتھ ایسی نازیبازبان استعمال کرتے ہیں جو ناقابلِ بیاں ہے۔اینکر فریحہ ادریس نے بھی عاصمہ شیرازی سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ایسی غنڈہ گردی دیکھی نہ سُنی۔ چیئرنگ کراس لاہورمیں سٹیج سے باربار یہ اعلانات ہوتے رہے کہ خواتین کا احترام ملحوظِ خاطر رکھاجائے لیکن جو فطرتاََ بَد ہو ،اُس پر بھلا اِن اعلانات کا کیااثر۔ سوال مگریہ کہ جب خواتین کے ساتھ متواتر ایسا سلوک ہورہاہے تو پھر وہ’’تحریکِ انتشار‘‘کے جلسوں اوردھرنوں میں جاتی ہی کیوں ہیں اور اُنکے والدین اُنہیں بھیجنے کی ہمت کیسے کرلیتے ہیں۔