سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر منایا جاتا تھا کیونکہ اس تاریخ کوسقوط ڈھاکاکا واقعہ رونما ہوا تھااور اسی تاریخ کوپشاورسکول میں دہشت گردوں نے دہشت گردی کرکے زیادہ سیاہ کردیا۔ ان درندہ صفت انسانوں (ان کو انسان کہنا بھی انسان کی تذلیل ہے)کو معصوم بچوں پر ذرا بھی رحم نہ آیا۔ کہنے کو یہ دہشت گرد اپنے آپ کو مسلمان اور دین کے ٹھیکدار سمجھتے ہیں مگر ان کے کام اسلام تو دور انسانیت کے قابل بھی نہیں۔ کل پشاور میں ہونے والے دل سوز واقعے پرپاکستان بھر میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہر طرف پشاور کے اس المناک واقعے کی باتیں ہورہی تھیں۔
پشاور کا آرمی پبلک سکول اپنے معمول کے مطابق کھلا۔طالبعلموں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ مسکراہٹیں اور شرارتیں سکول میں جاری تھیں۔کسی کومعلوم نہیں تھا کیا کہ یہ شرارتیں اور مسکراہٹیں ان کے چہروں پر آج آخری بار ہیں۔ ساڑھے دس بجے کا ٹائم تھا جب درندہ صفت دہشت گرددیوار پھلانگ کر سکول میں داخل ہوئے۔ اطلاع کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد 6 تھی۔ وہ ایک گاڑی کے ذریعے سکول میں پہنچے اور اپنا ثبوت ختم کرنے کے لئے گاڑی کو آگ لگا دی۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد دہشت گرد کلاس رومز میں داخل ہوئے اور بچوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے بہت سے بچے موقع پر ہی شہید ہوگئے۔
دہشت گردوں نے طلباء کی بڑی تعداد کو سکول آڈیٹوریم میں یرغمال بنا لیا جہاں پر میٹرک کے طلباء کی الوداعی تقریب ہورہی تھی۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی سیکورٹی فورسز اور پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔سیکورٹی فورسز کی جانب سے پوزیشنیں سنبھالنے کے بعد سکول کی عمارت سے وقفے وقفے سے دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں جس میں متعدد بچے شہید ہوگئے۔ عسکری ذرائع کے مطابق 2 دہشتگردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ سیکورٹی فورسز سے مقابلے میں 4 حملہ آور مارے گئے۔
آج کل انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ۔ ہر طرف اموات بانٹی جارہی ہیں۔ کہیں پر دھماکوں کے ذریعے تو کہیں پر ذاتی دشمنی کی بھینٹ لوگوں کو چڑھایا جارہا ہے۔ انسان کو چیونٹی کی موت مارا جارہا ہے۔ پھر انہیں اموات پر سیاست چمکائی جارہی ہے۔ میت کو سڑکوں پر رکھ احتجاج کیا جارہا ہے۔
چند ماہ پہلے ماڈل ٹاؤن میں ایک بڑا سانحہ پیش آیا جس میں تقریباً سترہ لوگوں کو شہید کیا گیا۔ مرنے والے اپنے جان سے گئے مگر ہمارے سیاستدانوں کو ان لاشو ں پر سیاست کرنے کا موقع مل گیا۔ قادری صاحب نے ان کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور ان کے قتل کا ذمہ دار حکومت کا ٹھہرایامگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان شہیدوں کومہرہ بنا کر وہ اپنی سیاست کرگئے لیکن ان کے قاتل آج بھی نامعلوم ہوکرپاکستان میں دندناتے پھر رہے ہیں۔قادری صاحب نے بڑے بڑے دعوے کیے کہ جب تک نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف ان کا مقدمہ درج نہیں ہوتا وہ اسلام آباد سے نہیں جائیں گے۔اسلام آباد میں دھرنے کی وجہ سے ملکی معشیت کو کافی تباہی کا سامنا کرنا پڑا مگر ان سیاستدانوں کی نورا کشتی میں مرنے والوں کو انصاف آج تک نہیں ملا۔
چند دن پہلے عمران خان نے فیصل آباد کو مظاہرین کی نظر کیا تو اس میں ایک شخص اپنی جان سے ہا تھ دھو بیٹھا ۔ اس پر بھی سیاستدانوں نے میڈیا پر خوب واویلا کیا۔ تحریک انصاف نے اس کا قتل ن لیگ کے کھاتے میں ڈالا اور ن لیگ نے ایک بار پھر اس کے قتل سے انکار کیا۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آج تک جتنے سیاسی کارکن شہید ہوئے ان کا کوئی قاتل پکڑا نہیں گیاکسی پارٹی پر قتل ثابت ہونے پر پابندی نہیں لگی مگر ہر احتجاجی دور میں کارکنوں کی ہلاکت ضرور ہوئی ہے۔کیا سیاست اسی کا نام ہے کہ غریب کو مروا کر خود اس پر عیاشی کرو۔
اب جب ایک بارپھر خان صاحب نے لاہور کو بند کرنے کا حکم صادر کیا تو پی ٹی آئی کے جنونی لوگ چاروں طرف پھیل گئے اور لاہور کی مشہور شاہراؤں کو ٹائر جلا کر بند کردیا۔ ان مظاہروں کے دوران خان صاحب مختلف شاہراوں سے گزرتے رہے اور ان کے کارکن شاہراوں کو بند کرتے رہے۔ اس دوران ذرائع کے مطابق تین سے چار مریض ایمبولینس میں دم توڑگئے کیونکہ ان کو ہسپتال پہنچنے کا راستہ نہ مل سکا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور فیصل آباد کی ایف آئی آر تو حکومت کے خلاف درج کرانے کا زور و شور ہورہا ہے۔ خان صاحب اور قادری صاحب بضد ہیں کہ ان کے کارکنوں کی قاتل حکومت ہے مگر جو لوگ ایمبولینس میں دم توڑ گئے ان کی ایف آئی آر کون اور کس کے خلاف درج کرائے گا؟ کیا وہ جانیں قیمتی نہیں تھیں؟کیا ان کا کوئی والی وارث نہیں؟ایک اطلاع کے مطابق فیروزوالہ میں مرنے والے بچے کے ورثاء نے روڈ بلاک کرکے پی ٹی آئی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
یہ ہم سب کے لیے سوچنے اور غور کرنے کا وقت ہے کہ ہم کب تک سیاست کے نام پر اور ان دہشت گردوں سے قیمتی جانیں ضائع کراتے رہیں گے؟ رب العزت سے یہی دعا کرسکتے ہیں اللہ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اس کو اپنی امان میں رکھے (آمین)۔