تھر میں جو بچے غذائی قلت ،بیماری ،سے جان کی بازی ہار رہے ہیں یہ بھی قتل ہے ،لیکن اس کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔اس لیے کسی دہشت گرد تنظیم یا ذمہ داروں کے خلاف آپریشن نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کو بھوکے رکھ کر مارنا دہشت گردی نہیں ہے ؟،بچوں کے علاج کے سہولیات مہیا کرنا ،ان کی خوراک کا انتظام کرنا ،کس کی ذمہ داری ہے ؟اور جن کی یہ ذمہ داری ہے ان سے پوچھنا کس کی ذمہ داری ہے آیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو کیوں پورا نہیں کر رہے ؟اور اس کی کوئی سزا بھی ہے کہ نہیں ہے؟جب بر صغیر میں جس میں تھر پاکر کا علاقہ بھی شامل یہاں انگریز کی حکومت تھی تو ایسی قحط کی صورت حال میں جو کہ بارشیں نہ ہونے کے سبب ہوتی تھی حکومت وقت پر امداد ی سامان مثلا پانی اورخوراک کا انتظام کر دیا کرتی تھی ۔اس کے بعد پاکستان بن گیا تو تھر کا آدھا حصہ پاکستان کے حصے میں آیا یہ دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے اس علاقے میں کوئلے ،کرینٹ پتھر ،نمک کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں ،پاکستان کے حصے میں آنے والے تھر کے حصے میں سکھ ، مسلم اور ہندو آباد ہیں ،مارواڑی اور سندھی بولی جاتی ہے ،میں نے کسی جگہ پڑھا ہے کہ 1970 تک تھر میں تقریبا ہر سال بارش ہو جایا کرتی تھی اس طرح تھری لوگوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے میں کسی حد تک آسانی رہی لیکن اس کے بعد موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ کم ہوتا گیا یا کم بارشیں ہونے لگیں ۔لیکن گذشتہ تین سال سے تھر میں بارش ہوئی ہی نہیں اس لیے یہاں قحط نے ڈیرے ڈال لیے ،اب اس پر حکومت کی طرف سے ان کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا جب وہاں غذائی قلت سے اموات ہونے لگیں اور میڈیا اس جانب متوجہ ہوا تو حکومت کے وزیروں ،مشیروں نے وہاں کا ایک ایک چکر لگا کر کچھ امداد کا اعلان فرما کر اپنا فرض پورا کر دیا اب جو انہوں نے امداد کے اعلان کیے ان پر کہاں تک عمل ہوا اس بابت پھرپوچھا نا گیا۔ ،گندم کی بوریاں گوداموں میں سجا کر رکھ دی گئیں ،منزل واٹر کی بوتلوں کے ساتھ بھی ایسا ہوا ،تھر میں بھوک ناچتی رہی ،بچے مرتے رہے ،پھر میڈیا پر شور اٹھا تو ۔۔تو پھر وہی حل جو ہر حکومت کے پاس ہوتا ہے کہ جو کام لٹکاناہو اس کی تحقیقاتی کمیٹی بنادی گئی ، لیکن ایک بات پر حیرت ہوتی ہے اس کمیٹی کی رپورٹ آگئی ۔جس میں بتایا گیا کہ تھر میں مرنے والے بچوں کے ذمہ دار حکومتی وزرا ہیں رپورٹ میں ،وزیر اعلی سندھ،ضلعی انتظامیہ ،محکمہ خوراک،وغیرہ کے خلاف کاروائی کرنے کی سفارش کی گی۔ لیکن جنہوں نے کام نہ کرنا ہو ان کے لیے اس کو مسترد کرنا کیا مشکل تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس رپورٹ کو ناپختہ قرار دے کر مسترد کر دیا ۔اب تھر میں مرنے والوں پر سیاست کی جارہی ہے ایم کیو ایم اورپیپلز پارٹی ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں ۔ابھی تک ذمہ داروں کا تعین نہ ہو سکا ہے اور نہ ہی ہو گا ۔تھر میں بچے مرتے رہیں گے ۔یہ ان کے نصیب ہیں ۔موت برحق ہے ،مرنے کے بعد حساب ہو گا وہاں ذمہ داروں کا تعین ہو جائے گا ۔
اس وقت بھی تھر کے علاقے مٹھی کے سول ہسپتال میں درجنوں معصوم پھول زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔موت نے تھر کی راہ دیکھ لی ہے ۔تھر میں غذائی قلت اتنی ہے کہ جو وہاں گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ بچے بھوک سے کمزور ہوتے جاتے ہیں اور سوکھ سوکھ کر جان سے گزر جاتے ہیں ۔تھری عوام کے جان و مال کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر ،اور اتنے عرصے تک کوئی فلاحی ،خیراتی،این جی اوز،ادارے مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے ۔اس کے علاوہ این جی اوز فنڈ لیتی ہیں ،بڑے ہوٹلز میں بیٹھ کر اس فنڈ کو کھا جاتی ہیں سب این جی او ایسا نہ کرتی ہوں گی لیکن اکثر ایسا ہی کرتی ہیں ۔دوسری طرف تھر ی جن کے نام پر جن کی غربت دکھا کر فنڈ اکھٹے کیے جاتے ہیں وہ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں ،گندم کے دانے دانے کو سسک رہے ہوتے ہیں ۔تھر میں زندگی کا انحصار بارش کے پانی پر ہے ،یہاں پر نہر دریا نہیں ہیں ،ریت میں کنویں کھودے جاتے ہیں ،جن میں سے اکثر کڑوا پانی نکلتا ہے ،پانی کے لیے تھر کے باسیوں کو کئی کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے ،تھر پارکر میں موت کا رقص جاری ہے آج کی تاریخ تک اکتوبر ،نومبر ،دسمبر یعنی صرف تین ماہ میں تھر میں شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 600 سے زائد ہو چکی ہے یہ وہ تعداد ہے جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے اور صرف بچوں کی ہے اصل میں مرنے والوں کی تعدا د کہیں زیادہ ہو گی ۔اس کے علاوہ تھر میں سسک سسک کر مرنے کی بجائے بہت سے افراد نے خود کشی کر کے جان دینا آسان خیال کیا۔ان کی تعداد ہمارے میڈیا میں بتائی نہیں گی ۔بیماری جو کہ بھوک کا ہی دوسرا نام ہے اس سے مرنے والے بھی اس میں شامل نہیں ہیں ۔پھر یہ کہ بیماریوں کے خلاف سہولیات مہیا کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟وہاں چند ہسپتال ہیں جن میں سہولیات نہیں اور ڈاکٹر بھی غائب رہتے ہیں ۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ہر روز چار سے سات بچے بھوک ،پیاس ،بیماری کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔اس کا تصور ہی رونگٹھے کھڑے کر دیتا ہے کہ بھوک سے ،پیاس سے اور بیماری سے بچے کیسے سسک سسک کر مر رہے ہیں ،کتنے کرب سے تڑپ تڑپ کر جان نکلتی ہو گی ،اس دوران ماں ،باپ کس بے بسی سے گزرتے ہوں گے ۔آج 21 ( دسمبر )تک صرف اس ماہ غذائی قلت سے جان کی بازی ہارنے والے کمسن بچوں کی تعداد 103 ہو گئی ہے تقریبا 5 بچے روزانہ اس طرح ایک ماہ میں 150 معصوم پھول حکومت کی لاپروائی ،بے حسی ،لاتعلقی کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرجھا جاتے ہیں ۔
ھکومت سے التجا ہے کہ اول یہ کہ فور ی طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرے ،تھری عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرے ۔نہ صرف مہیا کرے بلکہ مہیا کی گئی اشیاء عوام تک پہنچانے کی بھی نگرانی کرے ۔اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں تھری عوام کی جان بچانے کے لیے ان کی مدد کو پہنچیں صرف اعلان اور نعرے کی بجائے عملی اقدامات کریں ۔جس طرح جماعت الدعوۃ ملک پھر میں چند مہم چلائے ہوئے ہے اور اپنی بساط کے مطابق وہاں کام کر رہی ہے دیگر مذہبی جماعتوں کو اس نیک کام کے لیے آگے آنا چائیے اور تھری بہن بھائیوں تک اشیائے خودرونوش پہنچائیں میری گزارش تمام سیاسی و مذہبی اپوزیشن جماعتوں سے ہے کہ وہ تھری عوام کے لیے ان کی مدد کے لیے حکومت و عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے ،ایک جلسہ ،ایک ہڑتال،ایک لانگ مارچ ،تھری عوام کے لیے بھی کردے تاکہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر سکے ۔اور حکومت سے التجا ہے ایک پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھری عوام کے لیے بلائے جس میں وزریراعظم بھی شریک ہوں جس میں حکومت کے سارے اتحادی متحد ہو کر تھری عوام کے مسائل پر اس کے حل کے لیے ایک ہو جائیں ۔ پاکستان بھر کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام اور فوج سے التجا ہے جیسے سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے ایسا ہی ایک آپریشن تھر میں بھوک ،افلاس ،غربت ،پیاس،بیماری کے خلاف کیا جائے۔