یہ تو سچ ہے کہ وہ قافلہ جو بابائے قوم ‘قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سر کردگی میں‘ سوئے منزل چلا تھا وہ منزل سے ہٹتا جا رہا ہے ان خوابوں کی تعبیر تاحال حاصل ہو نہیں سکی جو بابائے قوم‘ قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور مفکر پاکستان‘ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ نے دیکھے تھے۔ بلاشبہ ہمارے اسلاف نے آزاوطن کے حصول کے لیے لازوال قربانیاں دیں اور ان خوابوں کی فصل بھی کاشت کی‘ جو اس خطۂ زمین کو گل وگلزار اوربے مثال بنا دیتے ۔لیکن ۔۔افسوس از حد افسوس ہم اس فصل کی اچھی طرح آبیاری نہ کر سکے۔اور اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ
لے اڑی بوئے گل رازِ چمن بیرون چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن
سوال یہ ہے کہ آج پھرہم اتنے بدحال اور بے بس کیوں ہیں جبکہ ہم ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے باسی ہیں ۔وائے ناکامی۔۔ہم میں قوت گویائی تو ہے مگر قوت عہد پیمائی نہیں رہی ،ہمارے ہاتھ اور بازو تو سلامت ہیں مگر ہمت مرداں جواب دے چکی ،ہمارے پاس جوش و ولولہ تو موجود ہے مگر عمل و فہم کا جامہ میسر نہیں ،ہم راہوں میں بیٹھے ان تماشائیوں کی طرح ہیں‘ جو دوسروں کا تماشا دیکھتے اور ان پر بے لاگ تبصرے کرتے ہیں در حقیقت خود اس مفلوج کی طرح ہے جو نہ دیکھتاہے،نہ سن سکتا ہے اور نہ ہی سمجھتا ہیے ۔ہم وہ مسلمان تھے‘ جو رشک آسمان ہوا کرتے تھے اور آ ج ہم ڈوبتے ہوئے ستارے کی طرح لگتے ہیں جو بالآخر ڈوب جانا چاتا ہے ،کیوں ہم یہ فراموش کر چکے ہیں کہ
ہمارے قائد جیسا راہنما نہ پیدا ہوا اور نہ پیدا ہوگااور اس کا اعتراف دنیا کرتی ہے ۔وہ بطل جلیل جس نے بکھرے ہوئے انبوہ کو لشکرجرار کی سطوت عطا کی اور لازوال راہنمائی اور فہم و فراست سے ‘ناممکن کو ممکن کر ڈالا ،دنیا کے نقشے کو ہی بدل ڈالا ،وہ کمزور سا نہتا انسان اپنے ارادوں میں‘ اس قدر بلند اور مضبوط تھا کہ ایک دنیا اس کی قائل ہو گئی بابائے قوم نے اپنا سکون ،آرام اور سب کچھ قربان کر ڈالا اوران کے عزم و یقیں نے ہمیشہ کے لئے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں اور یہ دنیا پر آشکار ہواکہ
غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اس مردِ آہن کوکوئی عارضہ، کوئی رکاوٹ یا کوئی دہشت و ڈر ہراساں نہ کر سکا ،وہ جب چلا تو تمام مشکلیں اور رکاوٹیں ریت کی دیوار کی طرح اس کے سامنے سر نگوں ہوئیں ۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مسلمان اپنے جداگانہ تشخص کے ساتھ آزاد ریاست کے مالک بنے ۔ان تھک محنت کی وجہ سے‘ قائد اعظم محمد علی جناحؒ جلد ہی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ۔اور پھر یوں ہوا اس خطۂ زمین کو نظر لگ گئی اور ابتدائی چند سالوں کے بعد پاکستان کوکوئی ایسا مخلص اور پر عزم راہنما میسرنہیں آیاجو اس دھرتی کے لیے جیتا ۔راہنما تو ایک طرف ٹھہرے اس کو تو دانشور بھی وہ ملے‘ جو اپنے اسلاف پر یوں رقم طراز ہوئے‘ جیسے کہ ان کا کوئی مقام رزم گاہ ہستی میں نہیں رہا ‘ ہم سب نے بھلا ڈالا کہ ہم وہ قوم ہیں‘ جس نے خاموش ہنگامۂ ہستی میں اک نئی روح پھونکی تھی ۔اور اس دشت بیاباں کو اپنے لہو سے سینچا تھا کہ ہم آزاد اور خود مختار قوم کی حثیت سے اقوام عالم میں سر اٹھا کر چل سکیں ۔مگر ہم نے اپنے راہنماؤں کے فرمودات اور اپنی اقدار و روایات کو پرانے زمانے کی راگنی سمجھ کر اپنی تہذیب و ثقافت کا چولا اتار کر‘ دوبارہ مغربی تہذیب کی چکا چوند میں گم ہوگئے ۔جس سے ہمیں نجات دلانے کے لیے خون کی ندیاں بہائیں گئیں۔
ہم نے ان کے پیغامات اور فرمودات کو فراموش ہی نہیں کیا بلکہ گر کسی نے ذکربھی کیا‘ تو یوں گویا ہوئے کہ یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا ۔اور ہر دور کے لیے کارگر نہیں ،ہمیں اقوام عالم کی سربراہی کرنا ہے۔جبکہ ہم ان کے ہا تھوں کٹھ پتلیاں اور باج گزار بنے ہوئے ہیں ‘
جبکہ ہمارے لیڈر وہ عظیم انسان تھے کہ دنیا نے کہا کہ قائد اعظم غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے کا مالک تھا ۔ان کے بارے پنڈت جواہر لال نہرو اور مسز وجے لکشمی پنڈت کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابو کلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو پاکستان کبھی تقسیم نہ ہوتا ۔ماسٹر تارا سنگھ سکھ راہنما کا کہنا تھا اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی ۔
آج میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر قائداعظم ؒ نہ ہوتے توشاید پاکستان معرض وجود میں ہی نہ آتا اور آج ہم غلامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ۔انھوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ہندوؤں اور انگریزوں کی مخالفت کے باوجود ہندوستان کے دو ٹکڑے کر ڈالے ۔قیام پاکستان کے حالات سے کون شناسا نہیں جب انگریز ہمیشہ کے لیے برصغیر کو خیر آباد کہہ رہا تھا ،مگر اس کے مضموم عزائم میں یہ تھا کہ ہمیں ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے سپرد کر دیا جائے تاکہ ہم ہمیشہ غلامی کی دھل دھل میں خاک ہوتے رہیں،اور ہندو ہمیں کیا سمجھتے تھے‘ اس سے بھی ہر ذی شعور واقف ہے ،ہم ذلت اور حقارت کی وہ زندگی گزار رہے تھے کہ جس کا سوچ کر ہی ‘پل بھر کو روح کانپ جاتی ہے ، آخر کار اس رب جلیل القدر کو ترس آہی گیا اس نے ہمیں قائد اعظمؒ کی راہنمائی بخش کر ‘جیت سے سرفراز کیا ۔علامہ اقبال نے شاید انہی کے لیے کہا تھا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مگر۔۔اے قائد !ہم تجھ سے شرمندہ ہیں کہ آج وطن عزیز انتشار اور خلفشار کا شکار ہے ،قومی مفاد ذاتی مفاد پر قربان ہو چکا ہے ،موت کے سائے منڈلارہے ہیں ،وحشت اور بربریت کا دور دورہ ہے ،احساس زیاں دم توڑ رہا ہے ،بدلے اور نفرت کا چار سو بسیرا ہے ،نفسا نفسی کا عجیب عالم ہے،اقربا پروری ،موروثیت اور نشۂ اقتدار نے سیاست کا چلن بدل ڈالا ہے ،دہشت گردی ،انتہاپسندی اور شر انگیزی کا راج ہے ،لہو کی بو اس کی فضاؤں میں رچ بس چکی ہے ۔اب تو ہوائیں بھی بین کرتی ہیں ۔ہم اپنی اقدار و روایات کو اپنے لیے شرمندگی سمجھنے لگے ہیں ،جنگل کا قانون عام ہو چکا ہے ،ڈکیتی ،چوری اور سینہ زوری معمولی بات بن چکی ہے ،ٹارگٹ کلنگ نے کراچی کو کربلا بنا رکھا ہے ،باہمی نفاق اورتفرقہ نے نفرت کے وہ بیج بوئے ہیں کہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے ۔چادر اور چار دیواری کا تحفظ پامال ہو چکا ہے ،قانون و انصاف پر عملداری کا فقدان ہے اور اسی لاقانونیت،سیکیورٹی اداروں کی ناقص حکمت عملیوں اور سیاسی انتشار کا سبب ہے آج ہمارے بچے اور عورتیں بھی درندوں کی دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں ،سانحہ پشاور (آرمی پبلک سکول) کے اندوہناک حادثہ کے بارے میں توکچھ کہنے کے لیے میرے پاس شبد ہی نہیں ،یہ تاریخ عالم کو وہ سیاہ باب ہے جسے معصوم پھولوں کے لہو سے لکھا گیا ہے ،اس کی تو جس قدر مضمت کی جائے وہ کم ہے ۔۔ان سفاک درندوں نے معصوم غنچوں کو جس بے دردی سے کچلا ہے وہ یقیناًجہنم واصل ہونگے ۔
کیا ہمارے بزرگوں نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ؟؟؟
مگربحثیت مسلمان ہمیں یاس سے آس کی طرف قدم بڑھانا ہونگے اوروقت کی پکار کو سننا ہوگااور اس کٹھن وقت میں جب دشمن چاروں اطراف سے ہم پر حاوی ہو چکا ہے اندرونی اور بیرونی دونوں اطراف سے ہم طوفانوں میں گھر چکے ہیں ایسے وقت میں ہمیں چاہیئے کہ متحد ہو جائیں اورحالات کی بدحالی سے مایوس ہونے کی بجائے قائدؒ کے اس فرمان کو ذہن میں رکھیں کہ ’’ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ‘‘اور اپنی تمام تر توانائیاں ‘وطن عزیز کی فلاح و سالمیت کے لیے وقف کریں ،سیاسی بدحالی کو بہتر کریں ۔’’وقت ٹپاؤ پالیسی ‘‘ پر عمل کرنے والوں کا سخت سے سخت احتساب کریں ،کرپشن و رشوت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ،اسلامی رویات اور اقدار کو فروغ دیں ،اس کا اطلاق تمام شعبہ ہائے زندگی پر ہونا چاہیئے ،کیونکہ ہمارے قائد نے جس چیز پر زور دیا وہ اتحاد اور اسلامی طرز حیات تھااور کہا تھا یہی ہماری سالمیت کا ضامن ہوگا ۔آج ا گر ہم پاکستان کو اسلامی ،جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ آپسی نفرتوں اور قدورتوں کو بھلا کر سب مل کر کوشاں ہوں اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی شبانہ روز تگ و دو اور محنت کو اپنا نصب العین بنائیں تاکہ اس چمن میں پھروہ بہار آئے جس کو پھر کبھی اندیشۂ زوال نہ ہو ۔آخر میں یہ بات بالآخر ہمیں یقین کر لینی چاہیئے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور یہی نظریہ بقائے پاکستان ہے وہ افراد یا قائدین جو اس نظریے کو فراموش کر کے آئے دن کو ئی نہ کوئی’’ امن کی آشا ‘‘جیسے راگ آلاپتے رہتے ہیں‘ نا جانے وہ اس وقت کیوں خاموش ہو جاتے ہیں ‘جب بھارت اپنے ارادے اور ماضی کے طریقہ ہائے واردات کو بار بار آزماتا چلا آتا ہے ۔جب بھی کبھی ہم قا ئداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے دوقومی نظریہ کو نظرانداز کریں گے تو ایک بارپھر‘ ہمارے ملک کے حالات ایسے ہی ہو جائیں گے جیسے کہ قیام پاکستان سے پہلے تھے ۔ہمیں اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کے لیے اس کی بنیاد کو لا الہ الاللہ کے تناظر میں اجاگر رکھنا ہوگا یہی قائد کا پیغام ہے اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے ۔آج ہم عظیم قائد کو اور اس کی رفقائے کار ہستیوں کو جتنا بھی خراج تحسین پیش کریں کم ہے بس یہی دعا ہے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے