ٹیکسلا ( ڈاکٹر سید صابر علی / یو این پی )تھانہ واہ کینٹ صدر کی حدود میں بیس سالہ شادی شدہ خاتون کو گیارہ افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ، حوا کی بیٹی کو تین روز تک جنسی حوس کا نشانہ بنانے والے درندہ صفت اوباش نوجوانوں نے رات کی تاریکی میں شدید تشدت کے بعد ہاتھ پاوں باندھ کر برہنہ حالت میں باہتر موڑ جی ٹی روڈ کے پاس پھینک دیا، خاتون کو نیم بے حوشی کی حالت میں لوگوں نے دیکھا تو اسکے برہنہ جسم کو چادروں سے ڈھانپا،تین روز قبل ٹیکسلا کی حدود سے خاتون کو چار افراد گن پوائنٹ پر اغواء کر کے کیری ڈبہ پر نامعلوم مقام پر لے گئے تھے جہاں دیگر ساتھیوں نے تین روز تک مسلسل اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ، باہتر موڑ کے قریب جی ٹی روڈ پر برہنہ حالت میں ملنے والی لڑکی کو پولیس اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئی ، جہاں پولیس اہلکاروں نے بھی متاثرہ خاتون سے زیادتی کرنے کی کوشش کی ، پولیس نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کا میڈیکل کرانا بھی گوارہ نہ کیا الٹا لڑکی کو پولیس اہلکاروں نے انتہائی نتائج کی دھمکیاں دیں،شادی شدہ خاتون کا خاوند فوج میں ملازم ہے ،تفصیلات کے مطابق اقراء نامی بیس سالہ خاتون جو کہ ٹیکسلا کے علاقہ جیون روڈ کی رہائشی ہے نے میڈیا کو بتایا کہ تین روز قبل وہ گھر سے دوائی لینے کے لئے بازار جارہی تھی کہ ایک کیری ڈبہ اسکا پاس رکا جس میں چار افراد سوار تھے انھوں نے زبردستی مجھے گن پوائنٹ پر کیری میں بٹھا لیا جبکہ وہ لوگ مجھے نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں مجھے نشہ آور اشیاء دی گئیں اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں موجود نو افراد نے باری باری مجھے جنسی حوس کا نشانہ بنایا ، دو دون دو رات حبس بے جا میں رکھ کر مجھ سے مسلسل زیادتی کی جاتی رہی بعد ازاں کل انھوں نے دو اور ساتھیوں کے حوالے کیا جنہوں نے پہلے میری عزت لوٹی بعدازاں میرے کپڑے اتار کر ننگا کردیا اور مجھے جی ٹی روڈ باہتر موڑ کے قریب ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینک دیا ، میں نیم بے حوشی کی حالت میں تھی وہاں لوگوں نے مجھے دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی جبکہ انھوں نے میرے جسم پر چادر ڈالی ، تھانہ صدر واہ کینٹ کا انسپکٹر محمد خان مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گیا دریں اثنا پولیس اہلکاروں نے بھی میرے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی اور ڈراتے دھمکاتے رہے جبکہ آج صبح مجھے گھر چھوڑا پولیس نے میری درخواست کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی ،جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی بیس سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ اسکا شوہر فوج میں ملازم ہے جبکہ اسکا کوئی بچہ بھی نہیں ،جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے ناموں کے حوالے سے اسکا کہنا تھا کہ دوران گفتگو وہ قیوم ، ملک جھلا، ملک اسحاق اور یاسر کا نام ے رہے تھے،متاثرہ خاتون داد رسی کے لئے مقامی وکیل کے دفتر پہنچ گئی اور ساری صورتحال سے انھیں آگاہ کیا ادہریہ امر قابل زکر ہے کہ پولیس نے درندہ صفت افراد کے خلاف تاحال کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جبکہ میڈیکل کرانے کی بھی زحمت گواراہ نہیں کی گئی،،جبکہ مذکورہ سنگین واقعہ کی نہ کوئی رپورٹ تھانے میں درج کی گئی اور نہ ہی سول ہسپتال ٹیکسلا میں فوری میڈیکل کے لئے بھیجا گیا،پولیس کا وقوعہ سے لاعلمی کا اظہار ،لڑکی کو اپنی گاڑی میں موقع سے لیکر جانے والا ایس آئی محمد خان بھی واقعہ سے منحرف ہوگیا، ایساکوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا اور نہ ہمیں رپورٹ کرائی گئی ،لوگوں کو مختلف بیانات دیتا رہا، ایس ایچ او تھاہ صدر واہ کینٹ ثنااللہ خان نیازی بھی واقعہ کی تفصیلات بتانے سے گریزاں، ٹال مٹول سے کام لینے پر ہی اکتفا کیا،تفصیلات کے مطابق گزشتہ رات ساڑھے سات بجے کے بعد جی ٹی روڈ واہ کینٹ نذد باہتر موڑ یو ٹرن کے قریب ایک خوبرو لڑکی جسکی عمر بائیس سال بتائی جاتی ہے برہنہ حالت میں جی ٹی روڈ کے قریب موجود چلا رہی تھی ، جبکہ لڑکی شدید زخمی اور اسکے ہاتھ پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ درندہ صفت لوگوں نے اسے اپنی حوس کا نشانہ بنایا جبکہ زیادتی کے بعد اسے رسیوں سے باندھ کر جی ٹی روڈ باہتر موڑ یو ٹرن کے قریب پھینک دیا ، ادہر موقع پر موجود عینی شاہدین نے واقعہ کی اطلاع میڈیا کے افراد کو دی ، عینی شاہدیوسف خان جو اپنی ہائی ایس نمبری -4711 آر ایل ایف مسافروں کو لیکر مردان سے ٹیکسلا جارہا تھا ہجوم دیکھ کر رک گیا یوسف خان کے مطابق ایک لڑکی جو برہنہ حالت میں تھی اور اسکے ہاتھ پاؤں سرخ رنگ کی رسیوں سے بندھے ہوئے تھے زارو قطار رو رہی تھی اور چیخ چیخ کر لوگوں سے مدد کی اپیل کر رہی تھی دریں اثنا بہت سارے لوگ وہاں جمع ہوگئے اس دوران تھانہ صدر واہ کینٹ کے ایس آئی محمد خان اپنی گاڑی میں وہاں پہنچے اور وہاں لوگوں نے لڑکی کے جسم پر چادریں ڈالیں جبکہ سب انسپکٹر محمد خان نے لڑکی کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور موقع سے چلے گئے ، ایک اور عینی شاہد مبشر علی جو کہ ٹیکسلا میںآٹو مکینک کی دکان کرتا ہے کا کہنا تھا کہ وہ دکان بند کر کے اپنے گھر بیرئیر نمبر 3 ایک ہائی یاس میں جارہا تھا ہماری گاڑی بھی لوگوں کا مجمع دیکھ کر رکی اس دوران واقعہ کا علم ہوا کہ ایک لڑکی جو برہنہ تھی اور اسکے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے چلا رہی تھی مجھے بچاو،جب میڈیا نے واقعہ کی تفصیلات جاننے کے لئے متعلقہ ایس آئی محمد خان سے انکے موبائل نمبری 0333-8227993 پر رابطہ کیا اور تفصیلات سے آگاہی کے لئے کہا تو موصوف نے کہا کہ اسطرح کا واقعہ ہوا ہی نہیں اور وہ واقعہ سے مکمل طور پرا نکاری ہوگئے،جب ایس ایچ او تھانہ صدر واہ کینٹ ثنا اللہ خان نیازی سے انکے موبائل نمبر0342-5637281 پر رابطہ کیا گیا ، تو موصوف نے بھی واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا تاہم میڈیا کے استفسار پر کہ ہمارے پاس موقع کے گواہ موجود ہیں موصوف نے کہا کہ میں آدھے گھنٹے بعد بتاتا ہوں ، جس کے بعد انھوں نے رابطہ نہیں کیا،اس بابت جبکہ تھانہ صدر واہ کینٹ میں موجود اہلکاروں نے بھی فون پر رابطوں میں مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کیا جبکہ واقعہ تھانہ صدر واہ کینٹ سے چند سو گز پر رونما ہوا ، ادہر یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ لڑکی کو کیوں نامعلوم مقام پر لیکر جایا گیا اور کیوں نہ موقع پر لڑکی کا میڈیکل کرایا گیا،ایس آئی محمد خان رابطوں پر لوگوں کو گمراہ کیوں کرتا رہا کبھی کہتا ہے کہ شوہر اور بیوی معاملہ تھا اور کبھی کسی اغواء کی گئی لڑکی کا زکر کر کے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش میں مصروف رہا ، ایس آئی محمد خان جو کہ لڑکی کو موقع سے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لیکر گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کہاں اور کس جگہ رکھا گیا اور اتنا بڑا واقعہ پر کیوں نہ کوئی قانونی کاروائی عمل میں لائی گئی ، لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس نے ملزمان سے بھاری رقم رشوت کے طور پر وصول کی جس کی بنا پر معاملہ کو کوئی اور رنگ دیکر اسے ختم کرناچاہتی ہے،واقعہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل چکی ہے مگر پولیس واقعہ سے تاحال لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے،خوبرو بائیس سالہ دوشیزہ سے گینگ ریپ کا سنگین واقعہ لوگوں سے چھپایا جارہا ہے،جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کچھ دال میں کالا ضرور ہے،ادہر ڈی ایس پی ٹیکسلا سرکل محمد سلیم خٹک مسلسل رابطوں کے باوجود اپنا موبائل اٹینٹ نہیں کر رہے،ادہر لوگوں کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ پر سینکڑوں لوگ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب منظر دیکھا،لیکن پولیس مسلسل حقائق سے روگردانی کرتی نظر آرہی ہے ، ادہرلوگوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کی ملی بھگت آشکار کی جائے اور واقعہ میں ملوث درندہ صفت لوگوں کو نشانہ عبرت بنایا جائے تاکہ کوئی بھی آئندہ اس قسم کی غیر اخلاقی اور انسان سوز حرکت کرنے کی جسارت نہ کرپائے،ادہر میڈیا کے بار بار استفسار پر پولیس میں کھلبلی مچ چکی ہے ، جسے پولیس کوئی اور رنگ دینے کی کوشش بھی کرسکتی ہے ،تاہم پولیس کی جانب سے ابھی تک کوئی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ، جبکہ عوامی حلقوں کی جانب سے شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حوا کی بیٹی کی عزت تار تار کرنے والے اوباش نوجوانوں سے پولیس ساز باز مک مکا میں سرگرم ہے ،اسی بنا پر لوگوں کو اصل حقائق سے دور رکھا جارہا ہے