کل ایک جنگل سے گزر رہا تھا کہ اچانک کُتوں کے ایک ریوڑ پر نظر پڑ گئی وہ ایک طرف سے دوسری جارہے تھے ان میں کچھ کافی بڑے تو کچھ تھوڑے چھوٹے تھے یہ ایک قطار میں بڑے سلیکے سے جا رہے تھے نہ کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھا اور نہ ہی سب سے پیچھے رہنے کی کوشش میں ، انہیں دیکھ کر میں رُک گیا کہ کہیں یہ مُجھ پر حملہ آور ہی نہ ہو جائیں وہ تھوڑا آگے جاکے سیکس میں مصروف ہوگئے اور میں وہاں سے چل پڑاایسے میں میری سوچ یورپین کنٹریزاوروہاں کے ماحول کی طرف چلی گئی کیونکہ وہ بھی ایسے ہی بڑے سلیکے سے چلتے پھِرتے اور رہتے ہیں ایسے ہی وہ بھی ایک دوسرے کو ناخن تو بہت مارتے ہیں اور ایسے ہی وہ شور بھی بہت مچاتے ہیں مگراپنے کسی بھائی کو نہ جان سے ماریں اورنہ ہی کسی بھائی کا گوشت کھائیں،مگر کسی دوسری نسل کو کسی بھی قیمت بخشتے نہیں،اور اُن کی بیویاں بھی اسی ہی طرح سے مشترکہ ہوتی ہیں مختصر یہ کہ اُن کا تمام تر چال چلن ہی کُتوں جیسا ہے اور کُتا اُنکا مقبول ترین پالتو جانور بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے رہن سہن کے طریقے سے لیکرقانون سازی تک کُتے سے ہی سیکھناشروع کیا اور کُتے پر ہی ختم کردیا ہے یعنی کہ وہ مکمل طور پرکُتے کے پیرو کار ہیں ،اور کُتے کے اپنے بھائی کو جان سے کبھی نہ مارنے کی وجہ سے اُس کے پیروکار بھی جلد اپنے کسی بھائی کا قتل نہیں کرتے اور جب قتل ہی نا کریں گے تو بدلے میں پھانسی کیسے چڑھیں گے اسی لئے وہاں پھانسی چڑھانے کا قانون بھی نہیں،اور وہاں عورت کوانتہاکی آزادی مِلنا بھی کُتے کی پیروی کا ہی نتیجہ ہے جس کے تحت اُن کے ہاں نا بیٹی کی تمیز ہے نا بھائی کی نا باپ سے پردہ ہے نا ماں سے جو چاہیں وہ کریں ،چاہیں تو بہن کے ساتھ شادی کر لیں چاہے تو بیٹی سے کر لیں ،جبکہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کے بنائے ہوئے قوائد وضوابط پر عمل پیرا ہیں اور جب ہم اپنے پیدا کرنے والے کے بنائے ہوئے قوانین پر مکمل طور پر عمل پیرا تھے تب پوری دُنیا پر حاکمیت کے ساتھ ساتھ دُنیا کی سب سے مہذب یافتہ قوم شمار ہوتے تھے اور جب ہم مہذب یافتہ قوم تھے تب پوری دُنیا ہم سے خوف زدہ تھی یہی خوف اِن کُتوں کے پیروکاروں کے دِلوں میں کسی حد تک آج بھی موجود ہے ،جس کی وجہ سے وہ اللہ کے قانون کو ماننے والوں کے پھِر سے اُن پر غالب آجانے سے بچاؤ کی کوشش میں ہمہ وقت لگے ہوئے ہیں جبکہ ہم اپنے رہن سہن کے اسلامی طریقوں کوچھوڑ کے اُن کے طریقوں کو اپنا آئیدیل بناتے ہوئے جس مقام پر آج ہم پہنچ چکے ہیں اس پر ندامت تو دور کی بات ہمیں یہ سوچ تک بھی کبھی نہیں آئی کہ ہم آج کہاں سے کس مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں اور مذید کس طرف جا رہے ہیں جبکہ کُتوں کے پیرو کار ہمیں مذید غلام بنانے کیلئے دِن رات سخت مشقت میں لگے ہوئے ہیں جس کیلئے کبھی وہ خواتین کے حقوق کے نام پر ہم میں بھی باپ بھائی ماں بہن یا بیٹی کی تمیز ختم کرنا چاہتے ہیں تو کبھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور قتل کے بدلے قتل( یعنی کہ پھانسی) سزائیں دینے پر پابندی عائد کرنے کو کہتے ہیں کیونکہ اِس پابندی سے قتل کی سزا کا خوف ختم ہو جائے گا اور قتل وغارت کو تقویت مِلے گی اور جب قتل و غارت کو تقویت مِلے گی تب ماحول خانہ جنگی کی طرف آئے گا جبکہ خانہ جنگی ہو گی تب اُنہیں ہماری پاک سر زمین پر قبضہ کرتے ہوئے ہمیں اپنا مستقل غلام بنا کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری عزتیں نیلام کرنے کا بہترین موقع مِل جائے گا، ورنہ اُنہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیوں نظر نہیں آتی جہاں درجنوں کے حساب سے بے گناہ مسلمان ہر روز بھارتی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں جہاں بھارتی فوج ہر روز معصوم پھولوں کو کچلتی ہے ،جہاں ہرروز حوا کی بیٹیاں سرِ عام نیلام ہوتی ہیں کیا یہ شہدا انسان نہیں ؟کیا یہ کسی ماں کے لال نہیں ؟کیا یہ کسی بیوی کے سہاگ نہیں ؟کیا یہ کسی بہن کے بھائی نہیں؟مختصر یہ کہ کیا یہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہورہی؟یہ تو کسی اینجیو کو نظر نہیں آتی ؟اِس پر تو کوئی بات نہیں کرتا ؟کیوں؟کیونکہ یہ سب مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے نا ؟اور اگر کوئی بات کر بھی لے تو اندرونی معاملہ قرار دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے ،اور اگر پاکستانی حکام کی غیرت جاگ جائے اور وہ سزائے موت پر عرصہ دس سال سے عائد پا بندی ختم کر بیٹھیں تو اس پر سبھی چلانے لگے ہیں ،کیا یہ پاکستان کاا ندرونی معاملہ نہیں ؟اس پر کیوں چر چے شروع ہیں؟ چرچے کرنے والی لابیاں پہلے ہندوستانی عورتوں کوتومکمل آزادی دلائیں جہاں کی 70فیصد خواتین مردوں کے جبر کا شکار ہیں ،پہلے کشمیر تو آزاد کروائیں جہاں کی ہر گلی سے ہر روز جنازہ اُٹھتا ہے ،اورپھِر پہلے عافیہ کو تو آزاد کرائیں،جب یہ سب یو جائے گا، تب ہم بھی پابندی پر غور کر لیں گے ،اور اگر حکومت نے ان مطالبات کے پورے ہونے سے قبل سزائے موت پرپابندی کی طرف کوئی قدم اُٹھایا تو پھِرنہ ہی تو دہشت گردی کبھی ختم ہوگی اور نا ہی کسی مظلوم کو صحیح معنوں میں انصاف مِل پائے گاجب انصاف میسر نا ہوگا تب حالات ایسے پیدا ہونگے کہ کوئی کنٹرول نہ کر پائے گااور اِن حالات میں حکمرانوں کے مسلم ہونے کے باجود بھی اِنہیں یہودی ایجنٹ تصور کیا جانے لگے گا، (فی امان اللہ)۔