وہ سادہ سا ایک عام سا انسان ہے میں ان سے کبھی نہیں ملا ،شائد مل بھی نہ پاوں ۔لیکن میں اس سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ وہ اللہ کے بندوں سے بناں کسی مسلک ،مذہب،فرقہ ،زبان ،صوبائیت ،رنگ و نسل کے محبت کرتے ہیں ۔انسانوں کی خدمت انہوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لی ہے ۔ان کو کسی سے شکایت نہیں ہے وہ زندگی سے خوش ہیں ۔وہ کہتے ہیں پاکستانی قوم ان سے تعاون کرتی ہے ۔سیاسی رسہ کشی ان کو پسند نہیں ہے ۔اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اللہ کی خوشنودی کے لیے خدمت خلق کر رہے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں سب سے بڑا فلاحی ادارہ ان کا ہے ملک کے کونے کونے میں ان کی فلاحی سرگرمیں جاری ہیں اور یہ سب وہ چندے سے مانگ کر رہے ہیں ۔ملک بھر میں ان کے مراکز کی تعدا تین و سے زائد ہے ۔اس نے وہ کام کیا ہے جو ہمارے ملک کی حکومتیں 70 سال میں نہ کر سکیں ۔اس نے تنہا کر دیا ہے ۔پاکستان میں خدمت خلق کے شعبے میں اس سے اوپر کسی کا نام نہیں لیا جا سکتا ۔اس نے دنیا کی سب سے بڑی ایدھی ایمبولینس بنائی ہے لاکھوں بوڑھوں کو پال رہا ہے ۔یتیم ،بیوواں،بے سہارا،مفلس،مسکین سب کی بے لوث خدمت اس کا کام ہے۔مجھے نہیں معلوم یہ کس نے کہا تھا کہ پاکستان عبدلستار ایدھی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔ جس نے کہا تھا خوب کہا تھا انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں پرورش پائی اور بین الاقوامی شخصیت بن گئے ۔گجرات کاٹھیاوار کے گاوں بانٹو امیں پید اہوئے ،ماں کی دوسری شادی تھی ،ماں کو ہمیشہ دکھی دیکھا ،ماں کے پہلی شادی سے بھی بچے تھے ،ماں ذیابیطس کی مریضہ تھی ۔ماں جب سکول جانے کے دو پیسے دیتی تھی تو ایک پیسہ دوسروں پر خرچ کر دیا کرتے تھے ۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد عبدالستار ایدھی پاکستان کراچی میں آبسے تھے ۔عبدلستار ایدھی نے 1951 کو ایک کلینک کی بنیاد رکھی اور اس کی ابتدا ایدھی فاونڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کی ابتدا صرف پانچ ہزار روپے سے ہوئی ۔آج اس فاونڈیشن کے تحت لاکھوں بے گھر ،نادار،مفلس،یتیم،بے سہاراکی مدد جا رہی ہے ۔فلاحی کاموں کے حوالے سے ایدھی فاونڈیشن ملک کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے ۔انسانیت کی خدمت (حقوق العباد) کے لحاظ سے ایدھی کا کام پاکستان بھر میں جاری ہے ۔اتنی کوئی بھی حکومت پاکستانی عوام کے لیے خدمت کا نیٹ ورک نہ بنا سکی جتنا بڑا نیٹ ورک اس نے بنایا ہے ۔ہنگامی صورت حال میں ایدھی سروس سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے ۔کوئی بیمار ہو یا شدید زخمی کوئی حادثہ ہو جائے تو سب سے پہلے ایدھی کا نام زبان پر آتا ہے ۔
پاکستان میں علامہ اقبال ،قائد اعظم کے بعد اگر کسی کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ عبدلستار ایدھی ہیں ان کے بعد محسن پاکستان عبدالقدیر کا نام ہے جن سے عوام بے پناہ پیار کرتی ہے ۔پاکستان میں محبوب ترین شخصیات کی جب بھی فہرست بنی ان میں قائد اعظم ،علامہ اقبال،عبدالستار ایدھی،ڈاکٹر عبدلقدیر خان ، سر فہرست ہوں گئے ۔ان کے لیے عرفان خالد کی ایک نظم ہے جو پیش ہے ۔
تم کو نوبل کی ضرورت ہی نہیں ہے بابا ۔۔۔۔کوئی اعزاز ،کوئی تاج ،کوئی تخت شاہی ۔۔۔۔کوئی تغمہ نہیں دنیا میں تمہارے قد کا ۔۔۔تم نے اس ملک کے لوگوں حکومت کی ہے
تم نے خدمت نہیں کی ،تم نے عبادت کی ہے ۔۔کوئی بھی مسند بھی تمہار لیے تیار نہیں ۔۔۔۔تم کسی اور ستائش کے بھی حقدار نہیں ۔۔۔۔۔لیکن آتی ہے کہیں سے یہ صدائے برحق
جھلملاتی ہوئی آنکھوں کی نمی میں تم ہو ۔سب کے دکھ درد کے ساتھی ہو ،غمی میں تم ہو ۔۔سب کی خوشیوں میں ہو موجود ،دکھ میں تم ہو ۔۔سب کی سانسوں میں ہو مہکتے ،دلوں میں تم ہو
اسی خدمت میں ہ پوشیدہ تمہارا نوبل ۔۔تم یہاں خاک نشینوں کے نمائندہ ہو ۔۔۔صرف بیواوں ،یتیموں کے لیے کام کرو۔۔۔۔تم بس لاشیں اٹھانے کے لیے زندہ ہو