ہم توحیران بلکہ پریشان تھے کہ انہونی کیسے ہوگئی ۔وزیرِداخلہ بھی اسے انہونی ہی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی ایکشن پلان پرمتفق ہوگئیں ۔یقین تونہیں آتاتھا لیکن سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتادیکھ کریقین کرناہی پڑتاہے ۔وہ تو اللہ بھلاکرے تیزوطرار اوربیباک الیکٹرانک میڈیاکا جس نے ساراپول کھول کے رکھ دیا ۔اب تک جتنے سیاسی رہنماء نیوزچینلز پرآئے سبھی کامؤقف ایک ۔سارے سیاسی ’’میاں مٹھو‘‘ایک ہی رَٹ لگارہے ہیں کہ چونکہ باقی جماعتیں ملٹری کورٹ پرمتفق تھیں اِس لیے مِلّی یکجہتی کی خاطراُنہوں نے بھی طوہاََوکرہاََ یہ کڑواگھونٹ پی لیاالبتہ مولانافضل الرحمٰن ’’ُپھڈا‘‘ڈال کے بیٹھ رہے اور پیپلزپارٹی نے توایسا جوازڈھونڈا کہ ہم عش عش کراُٹھے ۔اکابرینِ پیپلزپارٹی نے فرمایاکہ پانچ جنوری چونکہ ذوالفقارعلی بھٹومرحوم کی سالگرہ کادِن ہے اوروہ بھٹومرحوم ہی تھے جنہوں نے آمریت کے خلاف سب سے پہلی بغاوت کی اِس لیے وہ اِس دِن اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دے سکتے ۔پیپلزپارٹی کے بزرجمہروں کا کہا سَرآنکھوں پرلیکن شایدوہ بھول چکے کہ فوج کی نرسری میں پَل کرجوان ہونے والے بھٹومرحوم ایوبی دَورکے انیس وزراء میں سے واحدسول وزیرتھے ،باقی سارے وزراء فوجی ۔وہ یہ بھی بھول چکے کہ یہ اعزازبھی بھٹومرحوم ہی کے حصّے میںآیا کہ اُنہوں نے اپنے اقتدارکا آغاز بطور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کیا جودُنیا کی واحدمثال تھی۔یہ تو’’نَو سو چوہے کھا کے بلّی حج کوچلی‘‘والی بات ہوگئی لیکن پھر بھی پیپلزپارٹی کی مہربانی کہ اُس نے تمام تراختلافات وخدشات کے باوجوداکیسویں ترمیم کے حق میں نہ صرف ووٹ دیناقبول کرلیا بلکہ وہ اِس پرڈَٹ کرکھڑی بھی ہوگئی البتہ مولانافضل الرحمٰن نے ’’ٹَکاسا‘‘جواب دیتے ہوئے کہہ دیاکہ وزیرِاعظم صاحب نے مسودہ تیارکرنے میں اپوزیشن کوتو ساتھ رکھالیکن اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر’’چوری چوری‘‘ مسودہ ’’پھَڑکا‘‘دیا اِس لیے وہ اِکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے ۔جمعیت علمائے اسلام مذہبی اورفرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف ترامیم کوعمومی دہشت گردی میں تبدیل کرواناچاہتی ہے جبکہ دیگر مذہب جماعتوں کا استدلال یہ ہے کہ لسانی اورقومیت کی بنیادپر ہونے والی دہشت گردی کوبھی اِس بِل میں شامل کیاجائے کیونکہ دہشت گردی خواہ کسی بھی مقصدکے لیے کی جائے ،دہشت گردی ہی ہوتی ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایم کیوایم مذہبی اورفرقہ وارانہ دہشت گردی کوترمیم کاحصّہ بنانے پرتُلی بیٹھی ہے ،جومذہبی جماعتوں کو قبول نہیں جبکہ قومیت اورلسانیت کی بناپر ہونے والی دہشت گردی کی براہِ راست زَد ایم کیوایم پرپڑتی ہے جس کے لیے ایم کیوایم تیارنہیں ۔اُدھرنوازلیگ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کرباآسانی یہ ترمیم منظورکروا سکتی ہے لیکن یہ ترمیم متفقہ نہیں کہلائے گی جس کے لیے نوازلیگ تیار نہیں۔ویسے اگر نوازلیگ ’’زرداری فارمولے‘‘پر عمل کرلے تووثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا’’فَٹافَٹ‘‘مان جائیں گے ۔پیپلزپارٹی نے جنابِ آصف زرداری کی قیادت میں پانچ سال اِسی طرح پورے کیے کہ
میں بچا تیرِ حوادث سے نشانہ بن کر
آڑے آئی میرے تسلیم ، سَپر کی صورت
لوگوں کو یادہوگا کہ ایک دفعہ مولاناجنابِ آصف زرداری سے روٹھ گئے ،وجہ یہ تھی کہ مولاناکی نظر اسلامی نظریاتی کونسل کی ’’چیئرمینی‘‘پر تھی لیکن پیپلزپارٹی اِس پرتیار نہیں تھی اِس لیے مولاناکا روٹھناتو بنتاتھا ۔اُن دنوں حکومت بچانے کے لیے جنابِ زرداری کومولاناکی اشدضرورت تھی اِس لیے مولاناشیرانی کواسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنادیا اورمولانافضل الرحمٰن پھر پیپلزپارٹی کے ’’پَکے‘‘اتحادی بن گئے ۔دوسری دفعہ مولاناپھر پیپلزپارٹی سے روٹھے لیکن تب تک جنابِ زرداری ’’پَکا‘‘بندوبست کرتے ہوئے قاف لیگ کو ساتھ ملاچکے تھے اِس لیے مولاناکا روٹھنا بیکارگیا ۔وزیرِاعظم صاحب یہ توجانتے ہی ہیں کہ مولاناپہلے ہی خیبرپختونخوا کی حکومت تحریکِ انصاف کے سپردکرنے پراُکھڑے اُکھڑے رہتے ہیں اور اب کی بار تو میاں صاحب نے حدہی کردی ،مشورہ ہی نہیں کیا ۔مولانااُن دَس فیصد مدارس کی نشاندہی بھی چاہتے ہیں جودہشت گردی میں ملوث ہیں۔ مولاناخاطر جمع رکھیں،ہماری خفیہ ایجنسیاں اُن مدارس سے بخوبی آگاہ ہیں اور جب اُن پرہاتھ ڈالاجائے گاتو مولاناکے علم میں بھی آجائے گا ۔یہ یقین کہ مولاناکے مدارس اُن دَس فیصدمیں شامل نہیں کیونکہ مولاناتو ’’بقلم خود‘‘حکومت کے اتحادی ہیں البتہ ’’مولانا اتحادی ‘‘سے مشاورت نہ کرناایسا جرمِ عظیم ہے جس کی کم ازکم سزایہ ہے کہ نوازلیگ فوری طورپر ایک اوروزارت مولاناکے قدموں میں ڈھیر کردے ۔اگر حکومت نے ایسانہ کیاتو لاریب حکومت اکیسویں ترمیم آسانی سے منظورکروا لے گی لیکن یہ ترمیم متفقہ نہیں ہوگی کیونکہ مولاناروٹھے ہی رہیں گے ۔دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پوری قوم نے مل کرلڑنی ہے ۔سانحہ پشاورکے شہداء کے خون نے پوری قوم کوتو یکجا کردیا لیکن ہمارے رہنماء اب بھی سیاست کررہے ہیں ۔ہرکسی کے ذہن میںیہی خدشہ کلبلا رہاہے کہ اگرملٹری کورٹس بنانے کے باوجوددہشت گردی پر قابو نہ پایا جاسکا تواُن پریہ الزام دھراجائے گا کہ اُنہوں نے اکیسویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ۔اسی لیے سبھی اِسے ’’کڑواگھونٹ‘‘ کہہ رہے ہیں تاکہ کل کلاں کو وہ اپنے آپ کو بری الذمہ قراردے سکیں ۔وکلاء تنظیمیں اگرملٹری کورٹس کی مخالفت کرتی ہیں تو بات کچھ سمجھ میں بھی آتی ہے کہ اُن کاکام ہی آئین وقانون کی گتھیاں سلجھانا ہے اورسبھی جانتے ہیں کہ آئین میں ایسے ملٹری کورٹس کی گنجائش نہیں لیکن سیاسی رہنماؤں کاکیاکیجئے کہ جوآل پارٹیز کانفرنس میں ایک بات کرتے ہیں اور باہرنکل کر دوسری ۔
وکلاء کوتو شاید یہ جوازپیش کرکے مطمئن کیاجا سکتاہو کہ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات اُٹھانے ہی پڑتے ہیں اور ایساصرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیامیں ہوتا آیاہے ۔اگردہشت گردی کایہ عالم ہوکہ جج صاحبان کو براہِ راست دھمکیاں ملتی ہوں اور کچھ جج صاحبان اپنے خاندانوں سمیت ملک سے ہجرت کرچکے ہوں تو پھر آفرین ہے اُن حاضرسروس ملٹری آفیسرزپر جو ملٹری کورٹس کی سربراہی کریں گے کیونکہ وہ بھی گوشت پوست کے انسان ہی ہیں اور اُن کے بھی خاندان ہیں جنہیں دھمکیاں بھی مل سکتی ہیں اور خدانخواستہ اُن دھمکیوں پر عمل درآمدبھی ہوسکتاہے ۔یہ بجاکہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہترہوتی ہے اورکوئی بھی عقیل وفہیم کسی بھی صورت میں مارشل لائی آمریت کوقبول نہیں کر سکتالیکن کیایہ سچ نہیں کہ زلزلے آئیں ،دہشت گردی ہویا سیلاب آئیں تو فوج پہلی صف میں نظر آتی ہے ۔تھر میں قحط پڑے توفوج کی ضرورت اورسرحدوں کی حفاظت مقصودہو تو سینوں پر گولیاں کھاکر شہیدہونے والی بھی فوج ۔یہ ہمارے ہی بھائی بیٹے ہیں جو دہشت گردوں کونیست ونابود کرنے اوراُنہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے سینہ سَپرہیں اورمقصد صرف ایک کہ قوم سُکھ کی نیندسو سکے ۔اسی لیے آل پارٹیزکانفرنس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے برملا کہہ دیاکہ ملٹری کورٹس فوج کی نہیں،قومی ضرورت ہیں ۔