ہم توباربار یہ کہتے رہے کہ کپتان صاحب قول کے سچّے اوردُھن کے پکّے ہیں ،وہ جوکہتے ہیں ،کرگزرتے ہیں لیکن ہماری توکوئی سُنتاہی نہیں تھا ۔اُنہوں نے ’’تبدیلی‘‘کا نعرہ لگایااوردیکھ لیں تبدیلی لاکر دکھادی۔کیاہوا جویہ تبدیلی ’’نئے پاکستان‘‘کی صورت میں نہیں آئی ،اُنکی زندگی میں تو آگئی ۔اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ قوم تواب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور وہ خودفی الحال ’’ویہلے‘‘اِس لیے ’’ ہنی مون‘‘منانے کایہی بہترین موقع ہے ۔ہمیں اُن کی شادی پرخوشی توبہت ہے لیکن ساتھ تھوڑاغم بھی کہ سانحہ پشاورکے شہیدوں کا زخم ابھی تازہ ہے ،اگروہ شہداء کے چہلم کے بعدشادی کرلیتے توزیادہ بہترتھا۔ویسے توہم نے یہ بھی سُن رکھاہے کہ نکاح تو7 محرم کوہی مفتی سعیدصاحب نے پڑھا دیاتھا،اِس کاباقاعدہ اعلان جمعرات 8 جنوری کو کیاگیا،جس میں محض گواہان ہی موجودتھے ۔بہرحال نکاح جب بھی ہوا ،ہوگیالیکن اِس نکاح کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ہمارے خاں صاحب اپنے گھرمیں دولہابَن کے بیٹھ رہے اوربارات ریحام خاں لے کر آئی ۔فوٹوشوٹ پربھی ریحام خاں پُراعتماد نظرآئی جبکہ ہمارے خاں صاحب دولہنوں کی طرح شرماتے رہے اِس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ تبدیلی آنہیں رہی ، تبدیلی آگئی ہے۔تبدیلی آنے کاایک اورثبوت یہ بھی ہے کہ خاں صاحب اورریحام خاں کی یہ شادی ’’ایمرجنسی‘‘میں ہوئی۔ہوایوں کہ ریحام خاں ہمارے کپتان صاحب کا انٹرویوکرنے گئی اورچھوٹتے ہی یہ سوال داغ دیا ’’بڑی دیرکی مہرباں آتے آتے ،ہم توڈیڑھ سال سے انتظارمیں تھے ‘‘۔خاں صاحب نے لبوں پر میٹھی مسکان سجاتے ہوئے جواب دیا’’پہلے آپ نے صحیح طریقے سے بلایاہی نہیں تھا‘‘۔ پھرانٹرویو کاباقاعدہ آغازسیاست اور اختتام ’’اَکھ لڑی بَدوبَدی‘‘پر ہوا۔ دروغ بَرگردنِ راوی ،خاں صاحب نے ریحام خاں کوکہا ’’دوبچوں کاپاپا پھربھی آئی لَویو‘‘۔جواباََ ریحام خاں نے بھی جھَٹ سے کہہ دیا’’تین بچوں کی ماما پھربھی آئی لَویُو‘‘۔ ریحام خاںیہ توتسلیم کرتی ہیں کہ کپتان صاحب نے اُنہیں’’پَرپوز‘‘کیا تھا لیکن ’’اندرکی بات‘‘وہ بھی نہیں بتاتیں ۔بہرحال ’’ایمرجنسی‘‘میں ہی سہی ،شادی توہوگئی اِس لیے کب ،کیوں اورکیسے ہوئی جیسے سارے سوال بے معنی ہیں البتہ ہم خاں صاحب کوچاہنے ’’والیوں‘‘کو یہ پیغام دینے میں حق بجانب ضرورہیں کہ ’’اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر‘‘۔
سونامیوں کے ہاںآج کل سب سے مقبول نعرہ یہ ہے کہ’’بھابی آنہیں رہی ،بھابی آگئی ہے‘‘۔کچھ سونامیے تواِس تبدیلی پرباقاعدہ مٹھائیاں بانٹتے اوربھنگڑے ڈالتے بھی نظرآئے لیکن یہ تک نہ سوچاکہ اِس شادی خانہ آبادی نے کتنے دِلوں کی بربادی کی اورکتنے دل ’’توڑمروڑ‘‘ کے رکھ دیئے ۔اب توگلی گلی میں’’ٹھنڈی ٹھار‘‘آہوں کاشورہے۔ ایک دِل جَلی نے اگریہ ٹویٹ کیاکہ
ہمارے گھرکی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
تودوسری یوں گویا ہوئی کہ
اے عندلیب آ کریں مِل کے آہ و زاریاں
تُو ہائے گُل پُکار ،میں چلاؤں ہائے دِل
ہمیں تویہ بھی پتہ چلاہے کہ کچھ ’’دِل جلیوں‘‘نے گلیوں میں باقاعدہ کورس میںیہ گاناشروع کردیا ہے کہ
جیہڑے توڑدے نیں دِل برباد ہون گے
اَج کِسے نوں روایا ،کل آپ رون گے
دِل جلیوں کی اِس ’’تبدیلی‘‘نے ہمیں پریشان کردیا ہے کیونکہ اگر انہوں نے بَنی گالہ کے باہر’’دھرنا‘‘دینے کاپروگرام بنالیا تو ’’دِل جلے‘‘بھی اُن کی مددکو پہنچ جائیں گے اوریہ بھی ہوسکتاہے کہ نوازلیگ ڈی چوک اسلام آبادکا بدلہ لینے کے لیے بذریعہ راناثناء اللہ اِن دِل جلیوں کی چوری چوری مدد کرناشروع کردیں ۔اگرایسا ہوگیا تو خاں صاحب کی شادی کاسارا مزہ کِرکرا ہوکے رہ جائے گا ۔اِس لیے ہم تودِل جلیوں کویہی نصیحت کرسکتے ہیں کہ وہ دِل کے پھپھولے جتنے جی چاہے پھوڑلیں لیکن ’’کَکھ‘‘فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ قوم کوتو ’’بھابھی‘‘مِل چکی ۔
عمران خاں کی شادی کی افواہوں پرجناب نجم ولی خاں نے بڑاپُرمغز’’حسابی‘‘ تجزیہ کرتے ہوئے اِس شادی کی خامیاں اجاگرکی ہیں لیکن خوبی ایک بھی نہیں۔اِس کے باوجودبھی یہ اُنکی مہربانی ہے کہ ہماری طرح وہ بھی خاں صاحب کی شادی پرذاتی طورپر خوش ہیں ۔وہ فرماتے ہیں ’’یہ الگ بات ہے کہ اُنکی پارٹی میں شامل بہت سی نوجوان لڑکیاں اِس شادی پرخوش نہ ہوں ۔عین ممکن ہے اُن کے جلسوں میں آنے والی خوبصورت لڑکیوں کی تعدادمیں نمایاں کمی ہوجائے ،میرے خیال میںیہ تحریکِ انصاف سے پہلے اُن ٹی وی چینلوں کا نقصان ہوگا جواِن جلسوں میں ڈھونڈڈھونڈ کے چاندسے چہرے دکھاتے ہیں کہ اِس سے اُنکی ریٹنگ میں اضافہ ہوتاہے ۔تحریکِ انصاف کا یہ سیاسی نقصان ہوسکتاہے کہ وہ بہت سارے نوجوان جلسوں میں جاناچھوڑ دیں گے جو ٹی وی چینلوں پر نظرآنے والے چہرے دیکھتے ہوئے ہرجلسے میں باڑیں اور رکاوٹیں پھلانگ کرلڑکیوں والے حصّے میں جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ابھی تک یہ خدشہ موجودہے کہ عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ تحقیقات کے لیے حکومت تحقیقاتی کمیشن قائم نہ کرے ،ایسے میں تحریکِ انصاف کے پاس ایک مرتبہ پھرلانگ مارچ اور دھرنے کے سوا کیاراستہ ہوسکتاہے مگر عمران خاں کی شادی کے بعد تحریکِ انصاف کے جلسے بھی مسلم لیگ نون کے جلسوں جیسے ہوسکتے ہیں جہاں نظرآنے والے زنانہ چہروں کو دیکھ کر نوازلیگ کے نوجوان فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ٹی وی پرہی اُن کا خطاب سُن لیں ،جلسے میں جاکر اپناٹیسٹ( یعنی ذائقہ) خراب کرنے کی کیاضرورت ہے ‘‘۔محترم نجم ولی کاکہا بجا البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شادی ہمارے اینکروں اور لکھاریوں نے کروائی ہے۔آپ کویاد ہوگا کہ خاں صاحب متواتر ’’کُرلاتے‘‘ رہے کہ حکومت نے نیوزچینلزکے اینکروں کو خریدلیاہے لیکن کسی اینکرکے کان پرجوں تک نہ رینگی ۔بالآخرخاں صاحب نے ’’تنگ آمدبجنگ آمد‘‘کے مصداق اینکروں کو سبق سکھانے کے لیے خودایک ایسی ’’اینکرنی‘‘سے شادی کرلی جو ایکرنی کم اور’’ٹائیگرنی‘‘زیادہ لگتی ہے ،یقین نہ آئے تومحترم نبیل گبول سے پوچھ لیں۔جہاں تک صبیح وملیح چہروں کے جلسوں اور دھرنوں میں شرکت نہ کرنے کاسوال ہے تومشتری ہوشیارباش ،خاں صاحب نے قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ ’’نیاپاکستان‘‘بنانے کے بعدشادی کریں گے ،اب جب نیاپاکستان بن جائے گاتب وہ یقیناََ اپناوعدہ بھی پوراکریں گے اِس لیے پکچرابھی باقی ہے اوراُمیدیں قائم ودائم۔شایداسی لیے خاں صاحب نے مستقبل کی ’’خاتونِ اوّل‘‘کی اناؤنسمنٹ بھی روک رکھی ہے کیونکہ جب ہمارے کپتان صاحب وزیرِاعظم بنیں گے تب پتہ نہیں کون ’’خاتونِ اوّل‘‘قرار پائے گی ۔۔۔ اور ہاں نوازلیگ کے جلسوں میں ماناکہ خاں صاحب کے جلسوں جیسی رونقیں نہیں ہوتیں لیکن یہ اتنے ’’ماٹھے‘‘بھی نہیں ہوتے جتنے نجم ولی صاحب نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ڈھونڈنے والے کیمرے کی آنکھ کوکچھ نہ کچھ مِل ہی جاتاہے البتہ اگرمولانافضل الرحمٰن نے واقعی ڈی چوک میں دھرنادینے کا پروگرام بنالیا تووہاں نوجوانوں کو ’’کَکھ‘‘نہیں ملے گا کیونکہ مولاناکے جلسوں میں صباحت وملاحت نامی کسی ’’شے‘‘ کاوجودتک نہیں ہوتا ۔