اسلام سے پہلے لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے مگر اسلام نے بتایا کہ بیٹی زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔پاکستان میں جہاں پر مرد حضرات اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے لیے سرگرم ہیں وہاں پر عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔پچھلے دنوں جہاں ملالہ یوسفزئی کا چرچا رہا وہاں پر ارفع کریم کا نام بھی کسی کم نہیں ۔ ارفع کریم وہ ہستی ہے جس نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں بلند کردیا ہے آج ارفع کریم ہمارے درمیان موجود نہیں ہے لیکن ہمارے دلوں میں اب بھی وہ زندہ ہے۔ ارفع کریم پاکستان کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی شان بھی ہے ۔پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والا پھول ارفع کریم 2 فروری 1995 کو فیصل آباد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا ۔وہ لاہور گرامر اسکول کے پیراگون کیمپس میں اے لیول کی تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ اپنی زندگی کی پہلی دہائی مکمل کرنے سے قبل ہی 2004میں دنیا کی سب سے کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر لی ۔ اْن کے کارناموں کے اعتراف میں نجی و سرکاری اداروں نے انھیں کئی انعامات اور سونے کے تمغے بھی دیے۔سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں اْنھیں2005 میں فاطمہ جناح گولڈ میڈل کے علاوہ سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ارفع کو صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی سے بھی نواز گیا۔
جولائی 2005 میں مائیکرو سافٹ کارپوریشن کی دعوت پر ارفع کریم اپنے والد کے ہمراہ امریکا گئی۔ جہاں مائیکرو سافٹ کے چیئرمین بل گیٹس نے انھیں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند عطا کی۔ ارفع نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے کمپیوٹر کی دنیا میں وہ نام کمایا جس کی بدولت انتہائی کم عمری میں انھیں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسی عظیم شخصیت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بل گیٹس جس کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ اگر اس کے دس ہزار ڈالر زمین پر گر جائیں تو وہ انھیں اس لیے نہیں اٹھا کہ جتنا وقت وہ ان ڈالرزکو اٹھانے میں صرف کرے گا اتنے وقت میں وہ ان ڈالرز سے کہیں زیادہ کما لے گا۔ اس مصروف ترین شخصیت نے کہ جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے ایک سیکنڈ کا وقت بھی نہیں ہوتاانہوں نے ارفع کریم سے دس منٹ کی خصوصی ملاقات کی اور ارفع کریم کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جو یقیناً نہ صرف ارفع کریم اور اس کے والدین بلکہ پورے پاکستان کے لیے بڑے اعزاز و فخر کی بات تھی۔
ارفع کریم ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ تھیں ۔ 22 دسمبر 2011 وہ سیاہ دن تھا جب ارفع کریم کو اپنے گھر میں اچانک مِرگی کا دورہ پڑاانھیں فوری طور پرایک اسپتال منتقل کیا گیا اس دوران انھیں اچانک دل کی تکلیف بھی لاحق ہو گئی اور وہ کومے میں چلی گئیں۔ ارفع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے جب 2 جنوری کو بل گیٹس نے ان کے علاج کے لیے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان کے والدین سے رابطہ کیا اور امریکی ڈاکٹروں کا ایک پینل بنایا جو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پاکستانی ڈاکٹروں کو اپنے مشورے دے رہا تھا۔ بل گیٹس نے ڈاکٹرز کو ہدایات کی کہ ارفع کریم کے علاج و معالجے کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے اور ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ چنانچہ ان ڈاکٹروں نے سر توڑ کوشش کی کہ ارفع کی زندگی کو بچایا جا سکے۔ پھر عارضی خوشی کا دن بھی آیا جب9 جنوری کو ان کی حالت میں قدرے بہتری کے آثار نمودار ہوئے تاہم وہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اورپھر عزرائیل نے مزید مہلت نہ دی۔ کومے کے دوران ارفع کریم کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا ۔
دوہزار بارہ میں 26 دن تک کومے میں رہنے کے بعد 14جنوری بروز ہفتہ کو لاہور کے سی ایم ایچ(CMH) اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ 14 جنوری کی شب تقریباً9 بج کر 50 منٹ پر ارفع کریم کی افسوسناک موت کی خبر نے پوری قوم کو صدمے سے نڈھال کر دیا۔
ارفع کریم نے مائیکرو سافٹ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے علوم پر جو حیرت انگیز دسترس حاصل کی تھی انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حکومت نے لاہورمیں آئی ٹی پارک اور کراچی کا آئی ٹی سینٹر ارفع کریم کے نام سے منسوب کر دیا۔حکومت پاکستان نے کم عمر مائیکرو سافٹ پروفشنل ارفع کریم کی صلاحیتوں کے اعتراف میں خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا۔
پاکستان کی اس بیٹی نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ رہتی دنیا تک اس کانام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ کچھ لوگ ارفع کریم کاموازنہ ملالہ یوسفزئی سے کرتے ہیں مگر اگر صحیح تجزیہ کیا جائے تو ارفع ملالہ سے کہیں افضل ہے۔ ملالہ ایک سانحہ کے بعد علاج کے بہانے ملک چھوڑ کرچلی گئی اور آج تک واپس نہیں آئی مگر ارفع نے اپنی جان اپنے ملک میں دے دی مگر علاج کے لیے باہر جانا بھی گوارا نہیں کیا۔ملک کی اس بیٹی پر جتنا ناز ان کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہوگا اس سے کہیں زیادہ اس ملک کی عوام کوہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اسی بچی کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام نصیب کرے۔آمین