کون جانتا تھا کہ 16دسمبر 2014ء کا سورج ایک بہت بڑا سانحہ لے کر طلوع ہو گا۔سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجڑ جائیں گیں۔اور درجنو ں ننھے پھول لقمہ ء اجل بن جائیں گے۔اس افسوسناک اور دل خراش واقعہ نے جہاں ننھے شہیدوں کے لواحقین کے دل غم سے چور کر دئیے وہاں پوری دنیا کی انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اس دل دہلا دینے والے واقع کے بعد پورے پاکستان میں سیکیورٹی ادارے حرکت میں آ گئے اور ملک بھر میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔انٹیلیجنس رپورٹس پر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی فول پروف بنانے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔اس سلسلہ میں ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کو سیکیورٹی خدشات کے باعث سیکیورٹی فول پروف بنانے کی ہدایات جاری کر دی گئیں۔تعلیمی اداروں کوسیکیورٹی کی بابت Aکیٹگری اورA+کیٹگری میں تقسیم کیا گیا۔ جہاں سیکیورٹی کو فول پروف بنانے میں میٹل ڈٹیکٹر،کیمرے اور دیواروں کا انچا کرنے سمیت دیگر اقدامات شامل ہیں وہیں مسلح گارڈ کی بھی شرط رکھی گئی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی غربت،مہنگائی اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے غیر تربیت یافتہ سیکیورٹی گارڈز تعینات کر دیئے گئے۔جس تعلیمی ادارے نے جس طرح کا بھی سیکیورٹی گارڈ ملا حکومت کی سخت ترین ہدایات کے مطابق ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھرتی کر کے کھڑے کر دئیے۔شائد ہماری حکومت یہ نہیں جانتی تھی کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام تلوار یا اسلحہ کے زور پر نہیں پھیلا۔اسلام امن پسند مذہب ہے اور امن اسلحہ کی نمائش سے کبھی بھی نہیں آ سکتا۔میرے خیال مین دنیا میں امن کے لیئے پہلے دنیا کو اسلحہ سے پاک کرنا ہو گا۔جب تک ہم اسلحہ فری سوسائٹی کا قیام عمل میں نہیں لائیں گے امن نا ممکن ہے۔تمام تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی سے جو نقصان ہو گا اس سے شائد یا تو ہمارے حکومت اور سیکیورٹی ادارے ،وہ کبوتر بنے ہوئے ہیں جو بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا کہ اس نے تو بلی دیکھی نہیں یا پھر دہشت گرد عناصر سے ڈر چکے ہیں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اس قسم کی پابندیاں لگا رہیں ہیں۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ تعلیمی اداروں کے باہرخطر ناک اسلحہ لیئے چار سے پانچ یا اس سے بھی زیادہ تعداد میں گارڈز ہائی الرٹ کھڑے دیکھ کر قوم کے معماروں پر کیا اثرپڑے گا، ان لہراتی ہوئی بندوقوں ،3Gگنوں اور دیگر جدید قسم کے بارودی ہتھیاروں کی نمائش سے ہمارے بچے کیا سبق سیکھیں گے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا خوب کسی شاعر نے کہا ہے:
ِ ان ہواؤں سے تو بارود کی بو آتی ہے
ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے مرے سارے بچے
۔کیا ہم خطرناک ہتھیاروں کی نمائش سے ان کو وہ تعلیم دے سکتے ہیں جس سے وہ ایک پر امن اور ملک و قوم کے مفید شہری بن سکیں؟مجھے سن کر نہائت ہی افسوس ہوا کہ پشاور کے ایک سکول میں نا تجربہ کار سیکیورٹی گارڈ کی بندوک سے گولی چلنے سے سکول کے دو ننھے بچے شدید ذخمی ہو گئے اور دونوں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ’’آخر وہی ہوا نا جس کا ڈر تھا‘‘۔سب لوگ ان معصوم بچوں کے لیئیے جو اپنے ہی سکول کے سیکیورٹی گارڈ کی گن کی گولی لگنے سے ذخمی ہو گئے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطاء فرمائے اور وطن عزیز کے باقی تمام بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔جب حکومت نے تعلیمی اداروں میں مسلح سیکیورٹی گارڈز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا تھا تو میں نے اس وقت بھی حکومت کے اس اقدام کو احسن اقدام نہیں سمجھا تھا۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری حکومت پتہ نہیں کیوں یہ سمجھ رہی ہے کہ تعلیمی اداروں کے باہر سیکیورٹی گارڈ یا مسلح آدمی کھڑا کر کے دہشت گردوں سے بچ سکتے ہیں۔دہشت گرد اتنے شاتر اور تیز ہیں کہ وہ آرمی اور پاک آرمی کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کی ہر فرد کو اپنی حفاظت کے لیئے مناسب انتظامات کرنے چاہیئے مگر اس طرح خطرناک ہتھیاروں کی نمائش نہیں ہونی چاہیئے۔میں حکومت ،انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اداروں سے یہ پوچھنا چاہتوں کہ جہاں سانحہ واہگہ بارڈر،جی اور آر اور دیگر حساس ترین مقامات جہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی پر دہشت گردی کے واقعات ہو سکتے ہیں تو وہاں ایک یا دو مسلح گارڈ کیا کریں گے۔ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا اور اس خول سے باہر آنا ہو گا کہ سیکیورٹی گارڈکسی کی جان بچا سکتے ہیں۔ہماری حکومت کو چاہیئے کہ وہ قوم کے معماروں کوبجائے بزدل بنانے کے ان کے حوصلے بلند رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے کیوں کہ ہمارے جوان اپنے جان ومال اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ہمارا بچہ بچہ وطن عزیز کی عزت ،ناموس اور حفاظت کے لیئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہے ۔ہماری حکومت کو چاہیئے کہ وہ مستقل بنیادوں پر دہشت کرد عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیئے اقدامات کرے اور افغانستان اور پاکستان کو ملانے والی بارڈر لائن کو بند کرے اور سیکیورٹی خدشات کے باعث موثر اقدامات کرے۔اس وطن عزیز کو گلزار جنت بنانے کے لیئے اور امن کی سر زمین بنا نے کے لیئے ہر امن پسند اور انسان دوست فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔انسان دشمن اور دہشت گردعناصر کا مقابلہ کرنے کے لیئے سب انسانوں کو بیدار ہونا ہو گا کیوں کے دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں۔جگر مرادآبادی نے انسانوں کو کچھ اسطرح سے بیدار ہونے کامشورہ دیا:
یہ روز و شب یہ صبح و شام یہ بستی یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انسان اگر بیدار ہے