پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ۔ کرپشن کا اردو میں مفہوم بد عنوانی ،بدکاری ،بد عملی ،بد اخلاقی اور بگاڑ کا ہے ۔ عربی میں اس کا مفہوم لفظ فساد سے ممکن ہے ۔کرپشن سے معاشرے میں بع عملی ،بد اخلاقی ،بد عنوانی پھیلتی ہے جس سے معاشرے میں فساد پھیلتا ہے ۔قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو فرمایا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور رشوت ہے اسمبلی کو اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے اداروں میں 60 فیصد کرپشن زیادہ ہے ۔سب سے زیادہ کرپشن پولیس کے محکمے میں ہے اس کے بعد شہری اداروں ،سیاسی اداروں میڈیا ،پارلیمنٹ ،صحت ،عدلیہ ،تعلیم وغیرہ میں کرپشن ہے ،پانی و بجلی کے محکمے اور ملٹری ،مذہبی ادروں میں بھی کرپشن ہے ۔ (ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل )میڈیا جس کا کام ہے کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کر کے عوام کے سامنے رکھنا افسوس کہ اس ادارے میں بدعنوانی کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے ۔میڈیا اب ملٹی نیشنل کمپنیز ،سیاست دانوں ،کے ہاتھوں بک چکا ہے ۔کہا جاتا ہے میڈیا میں اب بہت کم افراد ایسے رہ گئے ہیں جو صحافت کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہیں ۔زیادہ تر کا کام سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپانا ہے ۔اور ان کے لیے ان کے ضمیر کی قیمت 500 کے نوٹ سے لاکھوں تک ہے ۔جتنا بڑا صحافی اتنی بڑی قیمت ۔اسی طرح عدلیہ میں کرپشن کا ہونا اس ناسور کو پھلنے پھولنے میں مدد گار ہے ۔یہ کہنا کہ کرپشن کا وجود ختم ہو جائے شائد درست سوچ نا ہو لیکن اس کا دائرہ کار محدود سے محدود تر کیا جا سکتا ہے ۔سب سے پہلے ہم کو خود اپنے آپ سے عہد کرنا ہو گا ہم خود بدعنوانی سے خود کو دور رکھیں ،پھر اپنے گھر ،اور معاشرے سے اس ناسور کے خاتمے کے لیے جہدوجہد کریں ۔کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ کردار نظام عدل و انصاف کا ہے ۔ لفظ عدل مصدرہے اس کا مطلب ہے انصاف و مساوات ،برابری ،ایک جیسا ہونا ،انصاف حق سے کرنا ،عادل خواہشات کی طرف مائل نہیں ہوتا، حق پر فیصلہ کرتا ہے ۔روزمرہ معاملات زندگی کی لوگوں کے درمیان اس طرح فیصلہ کا ہونا کہ کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو اس کو عدل کہتے ہیں ۔شیخ السلام امام تیمیہ کا فرمان ہے کہ (مفہوم) سیاست ،ملک ،یا معاشرے کی بنیاد دو ستونوں پر قائم ہے عہدے میرٹ پر ملنا اور ،فیصلے انصاف پر ہونا ۔انصاف پر ہی دین و دنیا کی فلاح کا دارومدار ہے ،بناں عدل کے کسی بھی معاشرے کی ترقی ،فلاح ،کامیابی،ناممکن ہے ۔عدل یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کے احکام پر عمل کریں اللہ سبحان و تعالی کے احکامات کے مطابق زندگی گزاریں اس کی وجہ وہ ہمارا خالق ہے اور اس لیے بھی کہ اس میں ہمارا ہی دنیا اور آخرت میں فائدہ ہے ۔اسی طرح عدل یہ بھی ہے کہ خود اپنی ذات کے ساتھ عدل کریں ایسے کام ،اعمال ،خواہشات سے خود کو دور رکھیں جو تباہی بربادی ،نقصان ،کا باعث بنتے ہیں ۔یعنی اپنی ذات کے فائدے کے لیے عدل یہ نہیں کہ کسی اور کا حق مار لیں اسے عدل نہیں کہتے ۔عدل کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ہمارا جن افراد سے واسطہ ہے ان کے ساتھ مساوات کا برتا ؤ کریں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ ہی دوسروں کے لیے پسند کریں ۔عدل کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے ،قانون میں خامی ہو تو عدل ممکن نہیں ہے اسی طرح قانون نافذ کرنے والے بھی اگر اپنی ذمہ داری پوری نا کریں تو عدل ممکن نہیں ہے ۔اس لیے ان کو عدل کے کٹہرے میں لانے والے نظام عدل کوہونا چاہیے ۔
عدل و انصاف پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ،کسی بھی شعبہ زندگی کو دیکھ لیں ،وہاں عدل نظر نہیں آئے گا ۔نظام عدل و انصاف کے کمزور ہونے سے ہی فرقہ بندی ہے ،دہشت گردی ہے ،کرپشن ہے ،جس کی وجہ سے غربت و بے روزگاری ہے اور ملک میں توانائی بحران ہے ۔اگر احتساب کا نظام ،انصاف کا نظام درست کام کر رہا ہو تو پاکستان میں یقین کریں کوئی بحران پیدا نہ ہو ۔میں اس پر زیادہ لکھ کر توہین عدالت کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا ،ہم نے دیکھا ہے بقول گورنر سرور صاحب کہ مظلوم پر ہی مقدمات ہو جاتے ہیں ۔جو مجرم کی نشاندی کرے وہ ہی مجرم ہے ۔وہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے جہاں عدل و انصاف بکتا نہ ہو ،ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے ،ہمارے ہاں عدل کے لیے مثال تو حضرت عمر فاروق کی دی جاتی ہے لیکن صرف مثال دی جاتی عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔قانون ایسا ہے کہ اس قانون میں ہی سزا سے بچنے یا بچانے کے راستے ہیں اور جس کے پاس پیسہ ہے قانون اس کا ہے ۔ حضرت علی کا یہ فرمان تو سب کو یاد ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر کے نظام کے تحت تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتا ۔لیکن ہمارے ہاں ظالم کو بچانے کے لیے قانون ہے ۔عدل وانصاف کے ذریعے ہی لوگوں کے درمیان حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے اور اپنے فرائض پورے نہ کرنے پر اسے سزا دی جاتی ہے ۔اللہ نے فرمایا ہے کہ ہم نے کتاب اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جا سکے ۔اسلام کے نظام انصاف میں تاریخوں کے دینے کا کوئی وجود نہیں ہے فیصلہ فوری طوری پر کیا جاتا تھا ۔اسلام میں انصاف سہل الحصول اور قاضی ،جج ،وکیل و تھانہ کچہری جانبدار نہ ہو اس میں رشوت اقربا پروری نہ ہو ۔یہ رشوت کا ناسور بھی انصاف و عدل کے نظام کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے ۔معاشرے کو ملک کو کامیابی سے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں قانون ہو اور اس قانون پر سختی سے عمل ہو ۔دنیا میں جتنے بھی عدالتی نظام ہیں ان میں کوئی نا کوئی خامی تو ہے ،مجرم کے بچ نکلنے کے راستے موجود ہیں لیکن جس نے اس مخلوق کو بنایا ہے اس کے خا لق کے بنائے ہوئے نظام عدل میں تو کوئی خامی نہیں ہے ۔اسلامی نظام و عدل میں امیر و غریب ،خاص و عام ،شاہ و گدا ،قاضی اور بادشاہ ،خلیفہ یا وریر اعظم و صدر کسی کو استثنی ٰ حاصل نہیں ہے ۔